وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ عطا مری نے کہا ہے کہ ایک خط مہان اور دوسرے کی اوقات نہیں یہ دہرا معیار ہے۔
کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران شازیہ مری نے کہا کہ عمران خان معصوم لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں، انہوں نے گھروں میں جھگڑے کروادیئے، دوست کو دوست سے لڑوا دیا، انہوں نے پاکستان کے جس تنزلی کا شکار کیا ہے وہ شاید کسی نے نہیں کیا۔ لوگوں کو گالیاں دینا اور بدتمیزی کرنا آتا ہے لیکن ہر شخص اپنی تربیت اور اخلاقی اقدار کی وجہ سے مجبور ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ عمران خان اس عمر میں بھی اکیلے انسان جیسی زندگی گزار رہے ہیں، انہوں نے زندگی میں کبھی اپنا خرچہ نہیں اٹھایا تو بچوں کا کہاں سے اٹھائیں گے، وہ ساری زندگی دوستوں کے پیسوں پر پلتا رہا، اس کے بعد اے ٹی مشینیں اپنالیں، جنہیں اس نے حکومت میں آنے کے بعد نوازا۔
شازیہ مری نے کہا کہ 90 کی دہائی کی سیاست کے بعد سیاسی جماعتوں نے اعتراف کیا کہ ہمیں ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے ملک میں جمہوریت مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ آج بھی حکومت میں شامل جماعتوں کے آپس میں نظریاتی اختلافات ہیں لیکن پاکستان کے استحکام کے لیے رواداری کی سیاست کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ عمران خان امپورٹڈ امپورٹڈ کا بین بجاتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے اپنے بچے کہاں رہتے ہیں، عمران خان مغرب کے جس اخلاق سے واقف ہے ایسا اخلاق اللہ کسی کو نہ دے۔ ہمیں اپنے ایمان کی نمائش کی ضرورت نہیں، ہم سے اللہ حساب لے گا ہمیں عمران نیازی کو اپنے ایمان کے بارے میں نہیں بتانا۔
شازیہ مری نے کہا کہ عمران خان کی اس خاتون کے ساتھ دوستی تھی جو آج کل کم عمر بچیوں کے جنسی استحصال کا الزام بھگت رہی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک ہی جیسے 2 خط لکھے گئے، ایک خط عمران خان نے اور دوسرا خط چوہدری شجاعت حسین نے لکھا لیکن ایک خط مہان اور دوسرے کی اوقات نہیں، یہ دہرا معیار ہے، قاسم سوری کو ان کی رولنگ پر سمن نہیں کیا گیا، دوست مزاری کو ان کی رولنگ پر سمن کیا گیا۔
رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ لاڈلے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، ہم سب اس ملک کے لاڈلے ہیں، صرف عمران خان لاڈلے نہیں جو کبھی کسی کی عزت پر حملے کرتا ہے تو کبھی کسی کی۔ عمران خان کو شرم نہیں آتی کہ وہ اپنی 4 سالہ کارکردگی بتانے کے بجائے فرح گوگی کے لیے آنسو بہاتے ہیں۔
شازیہ مری نے کہا کہ عمران خان نے آئی ایم ایف کی شرطیں ایسے مانی جیسے کوئی شخص دلہن لینے جاتے ہوئے سسرالیوں کے آگے لیٹ جاتا ہے۔
رہنما پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہماری آج بھی نظریں عدالت پر ہے، ہماری نظریں آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق ریفرنس پر عدالتی فیصلے کی روشنی میں عدالت پر ہیں۔
اگر سپریم کورٹ کی وہ تشریح درست ہے تو 22 جولائی کو پنجاب اسمبلی کا واقعہ بھی صحیح ہے۔ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ سے متعلق درخواستوں کی سماعت فل کورٹ میں ہونی چاہیے۔