کراچی : شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی جامشوروکے قائم مقام وائس چانسلر بھائی خان شر کے خلاف نیب کے بعد عدالت کی جانب سے توہین عدالت کی کارروائی کا عمل شروع ہوگیا۔
گزشتہ 15برس سے بھائی خان شر نے جامعہ کوکروڑوں روپے کا ناقافل تلافی نقصان پہنچایا، بیٹے، بھتیجے کےعلاوہ درجنوں غیر قانونی بھرتیاں کیں، طلبہ کے تناسب سے زیادہ اساتذہ بھرتی کررکھے ہیں، یونیورسٹی کے فنڈز بھتیجے کے ساتھ مل کر ایک اکائونٹ سے دوسرے اکائونٹ میں منتقل کرکے کیش کی صورت میں نکال لئے۔بھائی خان شر کیخلاف عباس علی قریشی کی درخواست پر 24فروری کو توہین عدالت درخواست کی سماعت ہوئی جس میں درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ خود ڈیپوٹیشن پر ہوتے ہوئے یونیورسٹی میں ضم ہونیوالے بھائی خان شر نے 30میں سے 15افراد کو ہٹایا ہے جن میں دو ایسے افراد شامل ہیں جو خود وائس چانسلر کے خلاف عدالت گئے جس پر سندھ ہائی کورٹ سرکٹ بینچ حیدر آباد کے جسٹس محمد سلیم جیسر اورجسٹس عمرسیال نے کہا کہ بھائی خان شر نے عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرکے عدالتی حکم کے باوجودبعض افراد کو ہٹایا ہے جس کی وجہ سے وہ ذاتی حیثیت میں7اپریل کو پیش ہو کر جواب دیں۔
دستاویزات کے مطابق بھائی خان شر 2007میں مہران یونیورسٹی سے چھٹی لیکر سینٹر آف ایکسی لینس آرٹ اینڈ ڈیزائن (MUET)میں ڈائریکٹر بن کر آئے جس کے بعد سے آج تک مہران یونیورسٹی واپس گئےہی نہیں اور اسی ادارے سے ریٹائرڈ ہو کر قائم مقام وائس چانسلر بن گئے۔
بھائی خان شر نے مہران یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور چیئرمین بی او جی سینٹر آف ایکسی لینس قدیر راجپوت سے مل کر ایک اشتہار ڈائریکٹر کے لئے جاری کیا اوربعد میں خاموشی سےخود کو 21ویں گریڈ میں ڈائریکٹر تعینات کرالیا تھا ۔
اس کے بعد مہران یونیورسٹی کی سروس بھی اسی سینٹر میںضم کرالی تھی جس کے بعد سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ امیرہانی مسلم کے فیصلہ کی روشنی میں او پی ایس ،آؤٹ آف ٹرن پوسٹ ، آؤٹ کیڈر کو واپس اپنے عہدوں میں بھیجنے کا حکم دیا گیاتھا جس کے باوجود بھائی خان واپس نہیں گئے جبکہ سینٹر میں ڈائریکٹر کی پوسٹ 5یا 3برس کے لئے ٹرن آور پوسٹ ہوتی ہے جس میں باہر سے کسی کو لیا جاتا ہے۔
بھائی خان شر کی غیر قانونی تعیناتی کے خلا ف سینٹر کے دو ملازمین راؤ عبدالرزاق راجپوت اور غلام پروراوڈھو نے 2019 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق یہ تعیناتی غلط ہے جس کے بعد 2019میںآئینی پٹیشن نمبر 656/2019کے تحت سندھ ہائی کورٹ سرکٹ حیدر آباد میں جسٹس صلاح الدین نے نیب کو انکوائری کرنے کا حکم دیا تھا،بعد ازاں جسٹس عدنان کریم نے آؤٹ آف ٹرن پروموشن ، ڈیپوٹیشن ، آؤٹ آف کیڈر اور بغیر اشتہار کے بھرتیوں کو ختم کرنے کیلئے ایک ماہ میں عمل درآمد کا حکم دیا تھااس کے باوجود وائس چانسلر بھائی خان شر نے ایک ماہ میں عدالتی حکم کی تعمیل نہیں کی جس کے بعد24فروری کو قائم مقام وائس چانسلر بھائی خان شر کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیئے گئے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق بھائی خان شر2020میں ریٹائرڈ ہو گئےتھے، اس دوران وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھائی خان شرکو ایک لیٹر جاری کیا کہ جب تک کوئی دوسرا ڈائریکٹر تعینات نہیں کیا جاتاتب تک وہ خدمات جاری رکھیں۔
سینٹر کے رولز کے مطابق وزیر اعلیٰ سند ھ مراد علی شاہ ڈائریکٹر کا لیٹر جاری نہیں کر سکتے کیوں سینٹرآف ایکسی لینس آرٹ اینڈ ڈیزائن وفاقی وزارت تعلیم کے ماتحت ادارہ تھا جس کی وجہ سے بھائی خان شر کی مراد علی شاہ کے لیٹر پر تعیناتی غیر قانونی تھی۔
جولائی 2020میں سینٹر آف ایکسی لینس آرٹ اینڈ ڈیزائن کو شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی بنادیا گیا تھا ، ستمبر 2020میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی کے ایکٹ کا حوالہ دیکرایک اور لیٹر جاری کیا جس میں بھائی خان شر کو قائم مقام وائس چانسلر تعینات کر دیا گیا ، اس لیٹر میں مرادعلی شاہ نے اپنے سابقہ لیٹر کی خود ہی نفی کرتے ہوئے رولز کا حوالہ دیا تھا جبکہ ڈائریکٹر والے لیٹر میں کسی رول کا حوالہ نہیں تھا۔
دستاویزات کے مطابق بھائی خان شر نے بحیثیت ڈائریکٹر2007میں سینٹر آف ایکسی لینس آرٹ اینڈ ڈیزائن میں6افراد کو بھرتی کیا جن میں اسسٹنٹ پروفیسر فضل الٰہی خان ، ٹیکسٹائل ڈیپارٹمنٹ میںاسسٹنٹ پروفیسر اعجاز حسین ، فائن آرٹ ڈیپارٹمنٹ میں گریڈ 18پر جام ڈیپر ، نظام ڈہری اور امجد تالپورکو لیکچرار اور کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ میں شاہد قیوم میمن کو تعینات کیا تھا جن کی تعلیمی قابلیت سی اور ڈی گریڈ تھی جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کےرولز کے مطابق لیکچرار یا اسسٹنٹ پروفیسر کیلئے تعلیم فرسٹ ڈویژن ہوناضروری ہے۔
خلاف ضابطہ بھرتی ہونے والے انہی اساتذہ پر مشتمل ایک کمیٹی بنا کر 2010میں اسٹوڈیو اٹینڈنٹ کو اسکیل 5سے گریڈ 14پر ترقی دےدی گئی جبکہ مذکورہ اسٹوڈیو اٹینڈنٹ (پیون )ڈیپارٹمنٹل ٹیسٹ میں بھی فیل ہو گئے تھے جن میں منور حسین لغاری کو گریڈ 17پر ترقی دیکر اسسٹنٹ کنٹرولر بنا کر گریڈ 20کے کنٹرولر کا چارج بھی دیاگیا ہے، ان میں سے فیل اسٹوڈیو اٹینڈنٹ ذوالقرنین بھٹو کو انچارج ایڈمیشن بنا یا گیا جوگزشتہ 13 برس سے انچارج ایڈمیشن سیل تعینات ہے، ذوالقرنین بھٹو ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کا انچارج ہونے کے علاوہ وومن ہراسمنٹ کمیٹی کا سیکریٹری اورپرچیز کمیٹی سمیت دیگر کمیٹیوں کا بھی ممبر ہے۔
2008 میں بھائی خان شر نے اپنے بھتیجے آصف علی شر کو اسٹوڈیو اٹینڈنٹ بھرتی کیا ، 2012 میں ڈمی اشتہار کے ذریعے گریڈ 11 کی اسامی نکالی گئی جس میں آصف علی شر کو گریڈ 14 میں اکاؤنٹنٹ بنا دیا تھا ، آصف علی شر بھرتی کمیٹی میں بطور اکاؤنٹس آفیسر ممبر بھی تھا جس نے خود کو ہی اکائونٹنٹ کیلئے تجویز کرنے کا انوکھا کارنامہ انجام دیا تھا ۔
بھائی خان شر نے اپنے بھتیجے آصف علی شر کو گریڈ 14 سے گریڈ 16 میں ترقی دیکر اکائونٹ آفیسربنا دیا ،2 برس بعد 2016 میں ایک اور اشتہار جاری کرکے آصف علی شر کو گریڈ 17 میں اکاؤنٹس آفیسر بنایا گیا اور 3 ماہ بعد آصف علی شر کو ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس بنا دیا گیا ، آصف علی شر اس وقت اسٹور ٹینڈر کمیٹی ، فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی ، اسٹور کمیٹی سمیت دیگر تمام کمیٹیوں کے ممبر ہیں۔
یونیورسٹی کے قیام کے 2 برس بعد 23 فروری کوپہلا ٹینڈر سیرامِک ڈیپارٹمنٹ بنانے کے لئے جاری کیا گیا ہے ، اس سے قبل یونیورسٹی کے کل بجٹ کو ڈی ڈی او پاور کے ذریعےبھائی خان شر اور ان کے بھتیجے آصف علی شر بغیر ٹینڈر کے ذریعے اخراجات کررہے ہیں۔2017 میں بھائی خان شر اور آصف علی شر نے مل کر پنشن کی رقم ایچ بی ایل جامشورو سے اے بی ایل جامشورو میں منتقل کر کے کیش کی صورت میں پیسے نکلوا لئے تھے جس کے بعد بھائی خان شر نے اپنے ہی غیر قانونی کام پر انکوائری کمیٹی بنائی اورخود کو کلیئر بھی کر دیا ۔
2016 اور 2018 میں مہران یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اسلم عقیلی کے حکم پرسلیکشن بورڈ منعقد کیا گیا جس میں شازیہ ابڑو کو اسسٹنٹ پروفیسر گریڈ 19 میں بھرتی کیا ، اس سلیکشن بورڈ میں قراۃ العین بھئیو کو گریڈ 18 میں لیکچرار تعینات کیا ،ہیسکو حیدرآباد کے ڈائریکٹر وزیر علی بھئیو کی بیٹی قراۃ العین بھئیو کو گریڈ 18 میں لیکچرار تعینات کیا جبکہ ہیسکو میں اسلم عقیلی بی او ڈی تھا ، قراۃ العین سلیکشن بورڈ میں واحد امیدوار تھی جو سلیکٹ ہو گئی ۔ہیسکو کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے دوسرے ممبر حبیب اللہ خلجی کی بیٹی حنا ماروی خلجی کو گریڈ 19 میں اسسٹنٹ پروفیسر تعینات کر دیا تھا ۔
اس سے قبل 2010 کے سلیکشن بورڈ میں سی اور ڈی کلاس کے اساتذہ کی بھرتی میں اس وقت مہران یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عبدالاحد ابڑو کے بیٹے عدیل ابڑو کو گریڈ 17 میں اسسٹنٹ نیٹ ورک ایڈمنسٹریٹر تعینات کردیا تھا ۔2017 اور 2018 کے سلیکشن بورڈ میں لیکچرار کی ایک اسامی پر دو افراد کو بھرتی کیا جن میں مہران یونیورسٹی کے ڈائریکٹر فنانس منیر شیخ کی بیٹی اسرا جان اور سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجیب صحرائی کی رشتہ دار صبا قیوم لغاری کو بھی گریڈ 18 میں لیکچرار بھرتی کر لیا تھا ۔
اسی سلیکشن بورڈ میں ایک گریڈ 16 کے سب انجینئرکی اسامی رکھی گئی جس پر مہران یونیورسٹی کے ڈین غوث بخش خاصخیلی کے بیٹے فہد خاصخیلی کو بھرتی کر لیا تھا۔
اکاؤنٹنٹ کی اسامی پر بہت سارے امیداروں نے کاغذات جمع کرائے تاہم مہران یونیورسٹی کے اس وقت کے ناظم امتحان سہیل احمد کھٹیان کے کزن منیر احمد کھٹیان کو گریڈ 16 میں اکاؤنٹنٹ بھرتی کرلیاگیا، سہیل احمد کھٹیان مہران یونیورسٹی سے چھٹیاں لیکر ضیا یونیورسٹی کلفٹن میں تعینات ہیں جبکہ اس سے قبل ہیسکو میں ایڈمن آفیسر بھی رہے جبکہ ان کیخلاف متعدد مقدمات اور انکوائریاں چل رہی ہیں۔
اسی سلیکشن بورڈ میں کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرار کی اسامی پر زمان بھٹو کو گریڈ 18کا لیکچرار تعینات کردیا تھا ، اس کے بھائی اسٹوڈیو اٹینڈنٹ کے اسکیل 5میں بھرتی ہو کر اب گزشتہ 12 برس سے ڈائریکٹر ایڈمیشن تعینات ہیں۔
مہران یونیورسٹی کے ڈین اور سلیکشن بورڈ کے ممبر خان محمد بروہی کی گریڈ 16 کی اسسٹنٹ عظمیٰ آریسرکو آرکیٹیکچر ڈیپارٹمنٹ میں گریڈ 18 کا لیکچرار بھرتی کرلیا تھا ،اس کے علاوہ وائس چانسلر بھائی خان شر کے بیٹے منصور علی شرگریڈ 14کے ٹیسٹ میں فیل ہو گئے تھے جن کو سلیکشن بورڈ میں کلیئر نہیں کیا گیا جس کے بعد2020میں بھائی خان شر نے وائس چانسلر بننے کے بعد سب سے پہلے اپنے بیٹے منصور علی شر کو گریڈ 17میں نیٹ ورک میں انجینئرتعینات کردیا ہے ۔
واضح رہے کہ شہید اللہ بخش یونیورسٹی آرٹ اینڈ ڈیزائن ہیری ٹیجز جامشورو میں وائس چانسلر سمیت دیگر اعلیٰ افراد کے خاندان کے نصف درجن لوگ بھرتی کئے ہیں جن میں بھائی خان شر نے اپنا بیٹا منصور شر ، ان کے عزیز پیرو شر ، رزاق شر ، احمد علی شر ، آصف علی شر ، پیر بخش شر ، قمبر علی شر شامل ہیں ، اس کے علاوہ سینٹر آف ایکسی لینس کے سابق ڈائریکٹر رفیق احمد جتیال 15 ماہ تعینات رہے جنہوں نے 15 ماہ اپنے 5 افراد بھرتی کیئے جن میں سب انجینئرامجد علی جتیال ، سدھیر جتیال ، مجید جتیال ، حب دار جتیال ، سلیم جتیال شامل ہیں۔
مزید پڑھیں:ہراسگی کے معاملات سامنے آنے پر جامعہ ہری پور 7مارچ تک بند کر دی گئی
شہید اللہ بخش یونیورسٹی آرٹ اینڈ ڈیزائن ہیری ٹیجز جامشورومیں اس وقت کل طلبہ کی تعداد570 ہے جن میں سالانہ 140طلبہ کو داخلے دیئے جاتے ہیں جبکہ جامعہ میں کل ملازمین کی تعداد 160ہے جن میں 70سے 75ملازمین اسکیل ایک سے گریڈ 16تک ہیں ،40سے 50اساتذہ ہیں ، 15سے 20افرا د گریڈ 17اور 18میں ہیں،حیرت انگیز طور پر پوری یونیورسٹی میں صرف ایک کلرک، 3لائبریریاں ہے ۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے رولز کے مطابق جامعات میں اساتذہ اور طلبہ کا تناسب ایک استاد 15طلبہ ہونے چاہئیں جبکہ شہید اللہ بخش یونیورسٹی آرٹ اینڈ ڈیزائن ہیری ٹیجز جامشورو میں ایک استاد اور 4طالب علم کا تناسب بن رہا ہے ۔ شہید اللہ بخش یونیورسٹی آرٹ اینڈ ڈیزائن ہیری ٹیجز جامشورو میں کل 4ڈیپارٹمنٹ ہیں جن میں آرکیٹیکچر اینڈ ڈیزائن ڈیپارٹمنٹ ، فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ،کمیونیکشن ڈیپارٹمنٹ ،ٹیکسٹائل ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 8ستمبر 2020کو قائم مقام وائس چانسلر تعینات کیا تھا جس کے بعد اب تک قائم مقام وائس چانسلر سلیکشن بورڈمنعقد نہیں کر سکے ، سلیکشن کمیٹی ، سنڈیکیٹ اور سینیٹ بھی بنا سکے ،اس یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے لئے دو بار اشتہار جاری کئےگئے۔ وائس چانسلر کے لئے جو شرائط جاری کی گئیں ان کے مطابق کوئی بھی امیدوار سامنے نہیں آیا جب کہ یونیورسٹی میں کوئی بھی پروفیسر نہیں ہے ۔بھائی خان شر کے خلاف نیب میں 2019میں انکوائری شروع ہوئی جس میں نیب کو معلوم ہوا کہ 38اسامیوں پر رشتہ دار بھرتی کئے ہیں ۔