جانوروں کے ساتھ تشدد اور زیادتی کے واقعات، انسانیت کس طرف جارہی ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جانوروں کے ساتھ تشدد اور زیادتی کے واقعات، انسانیت کس طرف جارہی ہے؟
جانوروں کے ساتھ تشدد اور زیادتی کے واقعات، انسانیت کس طرف جارہی ہے؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انسان کو اشرف المخلوقات سمجھا جاتا ہے جس کی ذمہ داری صرف اپنی نسل کے انسانوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے فرائض جانوروں اور پرندوں کے ساتھ ساتھ درندوں کی زندگی سے بھی جڑے ہوئے ہیں جنہیں سمجھنا اور بحسن و خوبی انجام دینا انتہائی ضروری ہے۔

دنیا بھر میں  جانوروں کے ساتھ تشدد اور ظلم کے ساتھ ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات بھی بنی نوع انسان کیلئے لمحۂ فکریہ ہیں جو خبروں کے ذریعے جب ہمیں پتہ چلتے ہیں تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آخر انسانیت کس طرف جارہی ہے؟ اور آج کا انسان جانوروں سے بد تر کیوں ہوگیا ہے؟

آئیے سب سے پہلے جانوروں کے ساتھ ظلم و تشدد اور جنسی زیادتی کے چند واقعات کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کہاں اور کیوں ہوئے؟ اور پھر یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شریعتِ اسلام اور آئینِ پاکستان ایسے ظالمانہ افعال اور بد ترین جرائم پر کیا سزا دیتے ہیں؟

جانوروں پر تشدد اور زیادتی کے واقعات اور ردِ عمل

لاہور میں 2 روز قبل یہ خبر سننے کو ملی کہ 15 سالہ لڑکے نے 6 دوستوں کے ساتھ مل کر بلی کے چھوٹے سے بچے سے متعدد مرتبہ جنسی زیادتی کی جس کے باعث وہ بچہ مر گیا جسے کچرہ کنڈی میں پھینک دیا گیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کٹن ریپ آج کا ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے جس کے تحت 8 ہزار 162 پیغامات اب تک ارسال کیے جاچکے ہیں جس کے تحت عوام اِس قبیح فعل کی مذمت کر رہے ہیں۔

سوشل  میڈیا صارفین کے مطابق وہ انسان انسان کہلانے کا لائق ہی نہیں جو جانوروں کے ساتھ بد ترین سلوک کرے جبکہ بعض افراد نے یہاں تک کہا کہ ہم اِس معاشرے کا حصہ بن کر خود شرمندگی محسوس کر رہے ہیں۔

دریائے سندھ میں ڈولفن کی جو قسم پائی جاتی ہے اسے انڈس ڈولفن کہا جاتا ہے جبکہ صوبہ سندھ پر عالمی ادارے چینج کا الزام ہے کہ یہاں مچھلیوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔انڈس ڈولفنز کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔ 

چینچ کے مطابق مقامی افراد اِس رسم سے واقف ہیں اور جان بوجھ کر اس کی مذمت نہیں کرتے کیونکہ یہ بہت عام ہوچکی ہے۔ ڈولفن کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام ہم سب نامی بلاگ نے بھی عائد کیا۔

بلاگ کے مطابق آلودہ پانی کے ساتھ ساتھ ڈولفنز کو جنسی زیادتی کے باعث بھی معدومیت کا خطرہ ہے جس کے خلاف کام کرنے کی ضرورت ہے۔

پنجاب میں 14 سالہ لڑکے کی مرغی سے جنسی زیادتی بھی خبروں کی زینت بن چکی ہے جبکہ گائے، بھینس، گدھی اور بکریوں سے بھی جنسی زیادتی کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ 

جنسی حرص و ہوس کا بد ترین رجحان

ہم جو کچھ انٹرنیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا یا گوگل پر تلاش کرتے ہیں، اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور پاکستان پر یہ الزام بھی عائد کیاجاتا ہے کہ کئی سال سے پاکستانی شہری جنسی نوعیت کی سرچز کرتے رہے ہیں۔

مذکورہ تنظیم چینج کے مطابق پاکستان میں سن 2004 سے گھوڑے، گدھے، کتے اور دیگر جانوروں سے جنسی زیادتی کی ویڈیوز اور مواد تلاش کیا جارہا ہے جس کی شرح پہلے سے کافی بڑھ چکی ہے۔

گوگل ٹرینڈز اینڈ انسائٹس دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن (گوگل) کا وہ فیچر ہے جس کے تحت دنیا کا کوئی بھی شخص یہ دیکھ سکتا ہے کہ پاکستان میں لوگ زیادہ تر کون سی باتوں کو سرچ کرتے ہیں۔

شرمناک بات یہ ہے کہ گوگل سرچ میں پاکستانی شہری علمی و سائنسی معلومات کی تلاش کی بجائے جنسی زیادتی اور خاص طور پر جانوروں کے ساتھ جنسی عمل کی ویڈیوز سرچ کرتے ہوئے پائے گئے جس پر فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔

سرچ سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی معاشرے میں جنسی حرص و ہوس کا رجحان کس حد تک پایا جاتا ہے؟ لوگ کیا دیکھنے یا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں؟ جبکہ پاکستان کے اعدادوشمار بد ترین رجحان کو ظاہرکرتے ہیں جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔

اسلامی شریعت کا نقطۂ نظر

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 52 میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ حلال اور حرام دونوں کھلے ہوئے ہیں، دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے (کہ وہ حلال ہیں یا حرام؟) پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔

زنا کرنے والے کی سزا اسلامی شریعت کے مطابق کوڑے مارنا یا سنگسار کرکے ہلاک کردینا ہے جبکہ قرآنِ پاک مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ زنا کے قریب بھی نہ جائیں یعنی بے حیائی کی باتیں بھی نہ کریں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام جنسی زیادتی اور ظلم و ستم سے کتنی نفرت کرتا ہے۔

قانون کیا کہتا ہے؟

جنسی زیادتی کے واقعات زیادہ تر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 376 (زنا کے خلاف قانون) کے تحت رجسٹر کیے جاتے ہیں تاہم جانوروں سے جنسی زیادتی پر کوئی باضابطہ قانون موجود نہیں۔

دوسری جانب تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 367 کے تحت جنسی تشدد ایک بڑا جرم ہے جس کی 2 طریقے سے سزا تجویز کی گئی۔ قانون کے تحت ایسے مجرم کو سزائے موت یا کم سے کم 10 اور زیادہ سے زیادہ 25 سال قید ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ قانون میں سزا کا تعین جج کیس کی نوعیت کے مطابق کرسکتا ہے۔ مجرم پر بھاری جرمانہ بھی عائد کیا جاسکتا ہے اور اگر معاملہ اجتماعی زیادتی کا ہو تو تمام ملزمان کو سزائے موت اور عمر قید بھی ہوسکتی ہے۔ 

تعلیم و تربیت کی ضرورت

پاکستان میں نظامِ تعلیم کی پسماندگی ہم سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ کوئی پڑھا لکھا اور باشعور انسان جانوروں سے جنسی زیادتی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا، اگر اس نے تعلیم و تربیت درست ادارے اور اچھے اساتذہ سے حاصل کی ہو۔

سب کچھ صرف کتابیں نہیں سکھاتیں بلکہ کسی بھی انسان کے کردار کو پروان چڑھانے میں تعلیم سے زیادہ عمل دخل تربیت اور کردار کا ہوتا ہے جو اسے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی سے نئی نسل کو دور رکھنے کیلئے انہیں گھٹیا ماحول اور بد ترین دوستوں سے بچائیے۔

والدین اور اساتذہ پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت ایسے خطوط پر کریں کہ وہ جنسی بے راہروی، زنا اور بے حیائی سمیت ہر قسم کی برائیوں سے دور رہیں۔

Related Posts