پاکستان میں سینیٹ انتخابات کی خبر سامنے آتے ہی تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت نے انتخابات وقت سے قبل کرانے کا عندیہ دیا جبکہ ہارس ٹریڈنگ کے خدشات کے پیشِ نظر اوپن بیلٹ انتخابات کا فیصلہ قومی تاریخ میں نئی پیشرفت سمجھا جاسکتا ہے۔
قومی و صوبائی اسمبلیوں سے قطعِ نظر پاکستان میں ہر 3 سال بعد سینیٹ کی نصف نشستوں پر نئے سینیٹرز لانے کیلئے انتخابات منعقد ہوتے ہیں جبکہ نصف ارکان 6 سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوتے ہیں۔
گزشتہ سے موجودہ سینیٹ الیکشن تک
مارچ 2018ء میں سینیٹ کا الیکشن ہوا تھا جس میں 52 اراکین منتخب ہوئے جو اپنی اپنی نشستوں پر بدستور براجمان رہیں گے جبکہ 2015ء میں منتخب کردہ سینیٹرز مارچ 2021ء سے ریٹائر ہوجائیں گے اور یہی وہ نشستیں ہیں جن کا انتخاب آج ملکی سیاسی تاریخ کا سب سے اہم موضوع بنا ہوا ہے۔
قومی سینیٹ کو ایوانِ بالا بھی کہا جاتا ہے جس کی مجموعی طور پر 104 نشستیں ہیں جن میں سے 18 پر خواتین سینیٹرز براجمان ہیں۔ قومی اسمبلی کے برعکس سینیٹ میں تمام صوبوں کے نمائندے برابر ہوتے ہیں۔
چاروں صوبوں میں سینیٹرز کی 14 عام نشستیں، 4 ٹیکنو کریٹ، 4 خواتین اور 1 اقلیتی نشست ہوتی ہے، مجموعی طور پر 23 نشستیں ایک صوبے کے حصے میں آتی ہیں جو 92 نشستیں بنتی ہیں۔ قبائلی علاقوں کیلئے 8 جبکہ وفاقی دارالحکومت کیلئے 4 نشستیں مختص ہیں۔
مجموعی طور پر سینیٹ انتخابات 48 نشستوں پر ہوں گے جن میں سے صوبہ پنجاب اور سندھ میں 11، 11، بلوچستان اور کے پی کے میں 12، 12 جبکہ اسلام آباد میں 2 نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔
خفیہ رائے شماری اور اپوزیشن کی حکمتِ عملی
عموماً سینیٹ کے اراکین خفیہ رائے شماری سے منتخب ہوتے ہیں۔ صوبائی سینیٹرز کو صوبائی اسمبلی اراکین کے کوٹے سے منتخب کیا جاتا ہے۔ فاٹا کے سینیٹرز قومی اسمبلی میں فاٹا کے ایم این اے منتخب کرتے ہیں جبکہ اسلام آباد کے سینیٹرز کو قومی اسمبلی کے تمام اراکین مل کر منتخب کرتے ہیں۔
ہوتا کچھ یوں ہے کہ جو اراکینِ اسمبلی جس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں وہ پارٹی ہدایات کے پیشِ نظر صرف اپنی ہی پارٹی کے امیدواروں کو سینیٹرز منتخب کرواتے ہیں تاہم خفیہ رائے شماری میں یہ پتہ نہیں چلتا کہ کس رکنِ اسمبلی نے حکومت یا اپوزیشن کے نمائندے کو سینیٹر بنانے کیلئے ووٹ دیا۔
ہارس ٹریڈنگ کے خدشات صرف حکومت کو نہیں بلکہ اپوزیشن کو بھی ہیں، تاہم 2 روز قبل یہ خبر منظرِ عام پر آئی کہ 11 اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد (پی ڈی ایم) نے 26 مارچ کو لانگ مارچ کے اعلان کے ساتھ ہی سینیٹ انتخابات میں مشترکہ حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ 5 گھنٹے طویل اجلاس کے بعد پی ڈی ایم نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ حکومت جو اوپن بیلٹ کا بل لا رہی ہے اس کی مل جل کر مخالفت کی جائے گی۔
حکومت کا آرڈیننس مسوّدہ اور لائحۂ عمل
آج وفاقی حکومت نے الیکشن ایکٹ 2017ء کا ترمیمی مسوّدہ تیار کر لیا۔ حکومت اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخابات چاہتی ہے جس کیلئےہوم ورک مکمل کر لیا گیا۔ اگر سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کو قانونی قرار دیا تو آرڈیننس جاری کر دیا جائے گا۔
صرف اپوزیشن ہی نہیں بلکہ ہارس ٹریڈنگ سے بچنے اور اپنے حق میں مزید ہارس ٹریڈنگ کرنے کیلئے حکومت بھی خاصی سرگرم نظر آتی ہے۔ آج بھی گورنر ہاؤس لاہور میں وزیرِ اعلیٰ، گورنر پنجاب، وزیرِ قانون پنجاب اور فردوس عاشق اعوان سر جوڑ کر بیٹھے اور سینیٹ انتخابات پر لائحۂ عمل طے کیا گیا۔ گورنر پنجاب نے کہا کہ ہم سینیٹ انتخابات میں اپوزیشن کو سرپرائز دینے والے ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان کا بیان
رواں ہفتے کے دوران ہی بدھ کے روز وزیرِ اعظم عمران خان کو پی ٹی آئی پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں سینیٹر کے عہدے کیلئے مجوّزہ امیدواروں کی فہرست پیش کی گئی جس کے بعد وزیرِ اعظم نے کہا کہ ہم سینیٹ کیلئے ٹکٹ میرٹ پر دیں گے۔
عمران خان نے کہا کہ ہماری خواہش ہے سینیٹ انتخابات میں پیسے کی بنیاد پر ہارس ٹریڈنگ نہ کی جائے۔ ایوان میں پارٹی کیلئے جو شخص بہتر ہوگا، اسے سینیٹر بنا دیا جائے گا۔ سینیٹ الیکشن کے بعد پی ٹی آئی سینیٹ کی بڑی جماعت بن جائے گی۔
سابق وزیرِ اعظم کا چیئرمین سینیٹ بننے کا خواب
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کیلئے پارٹی کی طرف سے یہ فیصلہ 3 فروری کو سامنے آیا کہ وہ سینیٹ الیکشن میں حصہ لیں گے اور اگر کامیاب ہو گئے تو چیئرمین سینیٹ کیلئے بھی امیدوار یوسف رضا گیلانی ہی ہوں گے۔
یوسف رضا گیلانی کا چیئرمین سینیٹ بننے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو یا نہ ہو، تاہم پیپلز پارٹی نے ان کی کامیابی کیلئے رابطے تیز کردئیے ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے امیدوار کی کامیابی کیلئے پر عزم نظر آتی ہے۔
انتخابات کا شیڈول اور اخراجات کی حد
الیکشن کمیشن نے سینیٹ الیکشن کا شیڈول 11 فروری کو جاری کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ کسی بھی امیدوار کے انتخابی اخراجات کی حد 15 لاکھ روپے مقرر کی۔ 3 روز قبل الیکشن کمیشن نے کہا کہ متوقع امیدواروں کیلئے کاغذاتِ نامزدگی کی فراہمی 3 فروری سے شروع ہوگئی ہے۔
کاغذاتِ نامزدگی چاروں صوبائی سیکرٹریٹس سے حاصل ہوسکیں گے۔ امیدواروں کیلئے کاغذاتِ نامزدگی جمع کراتے ہوئے پارٹی ٹکٹ منسلک کرنا لازمی ہوگا تاہم آزاد امیدواروں کو اس پابندی سے استثنیٰ دے دیا گیا۔
اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخابات پر بلاول کی رائے
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے 31 جنوری کو ایک پیغام میں کہا کہ سینیٹ الیکشن میں دھاندلی کیلئے قانونی تبدیلی کا سہارا لیا جارہا ہے جبکہ عوام کی منتخب حکومت ہی عوام کیلئے اقدامات اٹھاتی ہے۔
بلاول کے بیان سے اپوزیشن کا نقطۂ نظر واضح ہوتا ہے کہ اوپن بیلٹ انتخابات سے انہیں دھاندلی کے خدشات لاحق ہیں جبکہ حکومت اپنے اِس اصولی مؤقف پر قائم ہے کہ اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ کا راستہ روکا جاتا ہے، نہ کہ دھاندلی کو فروغ دیاجاتا ہے۔
فافن کا بیان، اوپن بیلٹ مفید بھی ہے یا نہیں؟
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے 29 جنوری کو یہ مشورہ دیا کہ سینیٹ الیکشن طریقہ کار میں تبدیلی کیلئے قانون سازی عجلت میں نہ کی جائے۔ تفصیلی مشاورت سے جامع لائحۂ عمل سامنے آسکتا ہے۔
اوپن بیلٹ کیلئے آئینی ترمیم بے فائدہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ فافن کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی مجوّزہ آئینی ترامیم کا اِس پہلو سے بھی جائزہ لے کہ اس سے سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خریداری اور فروخت ختم بھی ہوسکے گی یا نہیں جبکہ قومی اسمبلی میں آئین کی شق نمبر 59 اور 226 میں ترامیم تجویز کی گئیں۔
موجودہ صورتحال میں یہ ترامیم ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے زیادہ اہم نہیں ہیں کیونکہ فافن کا کہنا ہے کہ پارٹی ہدایت کے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کو سزا دینے کا تعین نہیں کیا گیا۔ اگر ایسا کیا جائے تو شاید اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ انتخابات مفید ثابت ہوسکیں۔