آرٹیکل 63اے سے واضح ہے کہ پارٹی سے انحراف غیر آئینی ہے۔سپریم کورٹ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ججوں کے خطوط کا معاملہ، چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن اجلاس کی آڈیو ریکارڈنگ جاری کردی
ججوں کے خطوط کا معاملہ، چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن اجلاس کی آڈیو ریکارڈنگ جاری کردی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے سے واضح ہے کہ پارٹی سے انحراف غیر آئینی اقدام ہے۔ ن لیگ کے وکیل کی گفتگو سے پتہ چلتا ہے، پارٹی سے انحراف کوئی غلط کام نہیں ہوتا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی۔ ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے مختلف سوالات اٹھا دئیے۔

یہ بھی پڑھیں:

وزیر اعظم دھمکی آمیز خط اتحادیوں اور سینئر صحافیوں کو دکھانے کیلئے تیار

ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا صدرِ مملکت اسمبلی کی کارروائی کے متعلق رائے لے سکتے ہیں؟ کیا اسمبلی عدالتی رائے کی پابند ہوتی ہے؟ کیا صدرِ مملکت نے ریفرنس اسپیکر کی تجویز پر بھجوایا؟ 

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اس پر جواب تو اٹارنی جنرل ہی دیں گے۔ صدر نے پوچھا ہارس ٹریڈنگ کیسے روکیں؟ اس کا جواب رائے نہیں بلکہ آئین سازی کے مترادف ہوسکتا ہے۔ عدالت سے ہارس ٹریڈنگ پر رائے نہیں مانگی گئی۔

اس موقعے پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ آپ کی گفتگو سے لگتا ہے پارٹی سے انحراف غلط اقدام نہیں، وکیل نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ شاید وہ اپنی بات عدالت کو سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

پارٹی سے انحراف کے متعلق جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ایک نقطہ نظر کہتا ہے کہ یہ جمہوریت کا حصہ ہے۔ دوسرا کہتا ہے یہ جان بوجھ کر دیا جانے والا دھوکا ہے۔ آرٹیکل 63 اے اسے غلط کہتا ہے۔ کیا یہ اتنا غلط ہے کہ تاحیات نااہلی ہونی چاہئے؟

ن لیگ کے وکیل نے کہا کہ صدرِ مملکت کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں غیر قانونی کام ہوا جس کے شواہد ہیں۔ وزیر اعظم اور صدر جانتے تھے کہ ہارس ٹریڈنگ ہوئی لیکن کارروائی نہیں کی گئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ثابت کرنا لازمی تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کسی ثبوت کا تقاضا نہیں کرتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ مذکورہ آرٹیکل سینیٹ الیکشن پر لاگو نہیں ہوتا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں ممبر کے ووٹ ووٹر کے طور پر ہوتے ہیں۔

اس موقعے پر جسٹس جمال خان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ کے انحراف پر مبنی ہے۔ کہیں سماعت کے بغیر نااہلی کا نہیں کہا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا ہارس ٹریڈنگ پہلی بار تو نہیں ہورہی۔ نظام کمزور ہوجائے تو سپریم کورٹ آئین بچانے آتی ہے۔ 

Related Posts