دنیا کیلئے خطرے کی گھنٹی بج گئی، سائنسدانوں نے قیامت کی گھڑی منگل 23 جنوری 2024 کو اپ ڈیٹ کر دی، کیا دنیا اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے؟
اس گھڑی کو 1947 میں دنیا کے چند سرکردہ سائنس دانوں نے بنایا تھا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ انسانیت جوہری جنگ، ماحولیاتی بحران اور مصنوعی ذہانت سمیت انسان کے پیدا کردہ خطرات سے تباہی کے کتنے قریب ہے۔
آدھی رات کا مطلب تباہی ہے اور گھڑی کے رکھوالے سال میں ایک مرتبہ اس کا وقت آگے اور پیچھے کرتے ہیں تاکہ انسانیت کو درپیش خطرات سے خبردار کیا جا سکے۔
2023 میں 90 سیکنڈز کی دوری پر، یہ 1950 کی دہائی کے جوہری پھیلاؤ کے ایام کے مقابلے میں آدھی رات کے زیادہ قریب تھا۔ 90 کی دہائی کے شروع میں یہ گھڑی خطرے سے دور چلی گئی اور 1991 میں آدھی رات سے 17 منٹ دور سیٹ کی گئی، جہاں یہ چار سال تک رہی۔
قیامت کی گھڑی آئی کہاں سے؟
یہ گھڑی سب سے پہلے 1947 میں بلیٹن آف دی اٹامک سائنٹسٹس کے اراکین نے بنائی تھی۔
اگرچہ یہ ایک جریدہ شائع کرتا ہے، لیکن بلیٹن دراصل متعلقہ ماہرین کا ایک گروپ ہے ، جو جوہری دور کے آغاز میں بنایا گیا تھا اور اس میں البرٹ آئن اسٹائن اور جے رابرٹ اوپن ہائیمر جیسے دنیا کے بہت سے مشہور سائنس دان شامل تھے۔

گھڑی کا خواب میگزین کے سرورق کے ڈیزائن کے حصے کے طور پر دیکھا گیا تھا اور آرٹسٹ مارٹل لینگسڈورف نے اسے تیار کیا تھا، جنہوں نے ایٹم بم بنانے کے لیے مین ہیٹن پروجیکٹ پر کام کیا تھا۔
پہلا اعلان آدھی رات سے سات منٹ دوری کا تھا، تاہم لینگسڈورف کا کہنا تھا کہ اس وقت کا انتخاب خطرے کی عکاسی کے بجائے خوبصورتی کی وجہ سے کیا گیا تھا کیونکہ یہ ’دیکھنے میں اچھا لگ رہا تھا۔‘
اس کے بعد سے وقت ہر سال تبدیل ہو رہا ہے۔ ابتدائی طور پر ان تبدیلیوں کا فیصلہ ایڈیٹر یوجین رابینووچ نے کیا تھا لیکن 1973 کے بعد سے ماہرین کے ایک بورڈ نے یہ فیصلہ باہمی تعاون سے کیا اور اسی وقت ایک طویل جواز اور انتباہ شائع کیا۔
ڈومز ڈے کلاک کا استعارہ کامک بک اور ٹی وی سیریز ’واچ مین‘ سے لے کر لنکن پارک کے البم ’منٹس ٹو مڈ نائٹ‘ تک مقبول ثقافت میں سمویا گیا۔
قیامت کی گھڑی کس چیز کی علامت ہے؟
یہ اس بات کی علامت ہے کہ انسانیت کو کتنا خطرہ ہے۔ ایسا کرنے کا مقصد انسانیت کو درپیش خطرات کا پتہ لگانا، تجزیہ کرنا اور ختم کرنا ہے۔
اگرچہ اسے جوہری جنگ کے خطرے کے ردعمل میں بنایا گیا تھا، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہ گھڑی بدل گئی ہے تاکہ کسی بھی قسم کے خطرات کو اس میں شامل کیا جا سکے۔
حالیہ دہائیوں میں جوہری خطرات کے ساتھ ساتھ اس میں ماحولیاتی بحران، مصنوعی ذہانت اور وبائی امراض سے پیدا ہونے والے خطرات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔