سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چوہدری کی ضمانت منظور کرلی

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ejaz chaudhary
FILE PHONE

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے سینیٹر اعجاز چوہدری کو ضمانت دے دی، ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے بھی جمع کروانے کا حکم دیدیا۔

اس فیصلے کی تفصیلات کے مطابق عدالت نے حکم دیا کہ اعجاز چوہدری ٹرائل کورٹ میں ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروائیں۔

سماعت کے دوران خصوصی پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ اعجاز چوہدری نے عوام کو اکسانے اور ایک مبینہ سازش کا حصہ بننے میں کردار ادا کیا۔

تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ اگر اعجاز چوہدری کے خلاف مقدمہ واقعی اتنا مضبوط ہوتا تو انہیں فوجی عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑتا کیونکہ 600 افراد کو پہلے ہی فوجی عدالتوں میں بھیجا جا چکا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ضمانت کو سزا کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

اعجاز چوہدری کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ 11 مئی 2023 سے حراست میں ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے تفصیلی چار صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں پنجاب حکومت کی وہ درخواست مسترد کر دی جس میں 9 مئی کے واقعات سے متعلق مقدمات کو دوسری عدالتوں میں منتقل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ عدالتی افسران کو انتظامی مداخلت سے تحفظ دینا آئینی فریضہ ہے، لہٰذا اس درخواست کو ناکافی قانونی بنیادوں پر مسترد کیا گیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی واضح کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو آئین کے آرٹیکل 203 کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ عدالتی افسران کو کسی بھی غیر ضروری انتظامی دباؤ سے محفوظ رکھیں۔

فیصلے میں مزید بتایا گیا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کے خلاف دائر ریفرنس ناکافی شواہد کی بنیاد پر خارج کر دیا گیا، جس سے عدالتوں کی خودمختاری اور عدلیہ کی آزادی کا اعادہ ہوتا ہے۔

فیصلے میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ کسی بھی شخصیت کے حوالے سے ذاتی آراء، چاہے وہ تنقیدی ہوں یا تعریف پر مبنی، آئندہ عدالتی کارروائیوں پر اثرانداز نہیں ہو سکتیں اور ان کی بنیاد پر احتسابی عمل میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔

سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ریاستی افسران کے طرز عمل پر تبصرے کرنا چیف جسٹس کا انتظامی اختیار ہے اور صرف انہی بنیادوں پر مقدمات کی منتقلی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

Related Posts