سپریم کورٹ نے 26ویں آئینی ترمیم کیس میں فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کر دی

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان (ایس سی) نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کی درخواست مسترد کر دی۔

پیر کو ہونے والی سماعت میں درخواست گزاروں کے وکلاء نے فل کورٹ تشکیل دینے پر تاہم آٹھ رکنی آئینی بینچ، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے ت درخواست کو مسترد کر دیا۔زور دیا۔

بینچ کے رکن جسٹس محمد علی مظہر نے درخواست گزاروں کے درمیان اس معاملے پر اختلافات کی نشاندہی کی۔پہلے آپس میں فیصلہ کریں کہ آپ لوگ کیا چاہتے ہیں،انہوں نے ریمارکس دیے اور سوال کیا کہ درخواست گزار آئینی بینچ کو کیوں قبول نہیں کر سکتے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی فل کورٹ بنانے کو غیر عملی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئینی بینچ ہی درخواستوں کی سماعت کے لیے مناسب فورم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل سے مزید اعتراضات جنم لے سکتے ہیں، خاص طور پر آئینی بینچ کے ججز کو فل کورٹ میں شامل کرنے کے حوالے سے۔

یہ مقدمہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے دائر کردہ درخواستوں پر مبنی ہے، جس میں 26ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کیا گیا ہے، جو رواں سال کے آغاز میں پارلیمنٹ سے منظور کی گئی تھی۔ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ یہ ترمیم آئین کی خلاف ورزی کرتی ہے اور بنیادی حقوق کو نقصان پہنچاتی ہے۔ پارٹی نے مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں پر سیاسی فوائد کے لیے ترمیم کا سہارا لینے کا الزام عائد کیا ہے۔

خیبر پختونخوا میں سینئر شہریوں کے لیے کلب کے قیام کا اعلان

26ویں ترمیم میں متعدد اہم تبدیلیاں شامل ہیں:
– چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری میں پارلیمنٹ کو مزید اختیارات دینا۔
– چیف جسٹس کے عہدے کی مدت تین سال تک محدود کرنا۔
– آئینی معاملات کی سماعت کے لیے ججز کا نیا کیڈر قائم کرنا۔

ناقدین نے اس ترمیم کو سیاسی قرار دیا ہے، خاص طور پر اس وقت جب یہ ترمیم سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ قبل منظور کی گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ترمیم نے جسٹس منصور علی شاہ کی متوقع ترقی کو متاثر کیا، جس سے اس کے وقت اور نیت پر سوالات اٹھتے ہیں۔

درخواست گزاروں کے وکلاء نے عدالت سے سماعت کی لائیو اسٹریمنگ کی درخواست بھی کی، جس پر بینچ نے کہا کہ اسے بعد کے مرحلے میں زیر غور لایا جائے گا۔ فی الحال، عدالت نے کیس کو مزید جائزے کے لیے تین ہفتوں کے لیے ملتوی کر دیا ہے۔

یہ فیصلہ عدلیہ کی آزادی اور پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان طاقت کے توازن سے متعلق جاری قانونی اور سیاسی بحث میں ایک اہم لمحہ ہے۔

Related Posts