کراچی کو کنکریٹ کا جنگل بنانے میں ایس بی سی اے مبینہ ذمہ دار

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی کو کنکریٹ کا جنگل بنانے میں ایس بی سی اے مبینہ ذمہ دار
کراچی کو کنکریٹ کا جنگل بنانے میں ایس بی سی اے مبینہ ذمہ دار

شہرِ قائد میں آج جگہ جگہ بلند و بالا عمارات کا ڈھیر نظر آتا ہے جن میں سے زیادہ تر تعداد رہائشی عمارات کی ہے جن کے باعث کراچی کنکریٹ کا جنگل بنتا جارہا ہے۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کا ادارہ  جو پہلے کبھی کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی تھا، آج شہر میں تمام تر غیر قانونی تعمیرات کا ذمہ دار ہے جو براہِ راست سندھ حکومت کے ماتحت ہے جس کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں۔

ایس بی سی اے کی ذمہ داریاں

جس پلاٹ پر کوئی عمارت تعمیر ہونی ہے، اس کا نقشہ کسی ماہرِ تعمیرات سے بنوا کر ایس بی سی اے سے منظور کروایا جاتا ہے۔ ایس بی سی اے کی ذمہ داری ہے کہ نقشے کو تمام تر قانونی تقاضے مدنظر رکھتے ہوئے منظورکرے۔

عمارت کی تعمیر کیلئے پلاٹ کے حجم اور رقبے کو مدنظررکھتے ہوئے اس کی بلندی اور بالائی منزلوں کی تعداد کا تعین کیاجاتا ہے تاکہ عمارت تعمیر ہونے کے بعد عوام کیلئے وبالِ جان نہ بن سکے۔

منزلوں کی مقررہ تعداد سے زائد اور خلافِ قانون تعمیرات کی ذمہ داری ایس بی سی اے پر عائد ہوتی ہے۔ ادارے کی ذمہ داری ہے کہ اوّل تو ایسی عمارات تعمیر نہ ہونے دے اور اگر ایسی کوئی تعمیر شدہ عمارت نظر آئے تو اسے منہدم کرے۔

تعمیر ہونے والی عمارت میں بلڈنگ میٹرئیل کے معیار کو برقرار رکھنا ایس بی سی اے کی ذمہ داری ہے جس میں سریا، سیمنٹ اور بجری کا تناسب، جس جگہ عمارت تعمیر ہو رہی ہے، وہاں کی زمین کا معیار بھی جانچنا ضروری ہے، یہ سب شامل ہے۔

تاہم ایس بی سی اے کا ادارہ  کراچی میں اپنی مذکورہ ذمہ داریاں پوری کرتا دکھائی نہیں دیتا جس کے نتیجے میں شہر کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے جس میں مخدوش عمارتوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جو کسی بھی وقت کراچی کے شہریوں کو جانی و مالی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

کراچی میں غیر قانونی تعمیرات

کراچی کے جن علاقوں میں غیر قانونی کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں ان میں سرِ فہرست لیاقت آباد، نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد، جمشید ٹاؤن، گلشنِ اقبال ٹاؤن اور لیاری ٹاؤن شامل ہیں جبکہ دیگر ٹاؤنز میں بھی غیر قانونی تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے۔

ان غیر قانونی تعمیرات میں بعض بڑے رہائشی منصوبوں میں بلڈرز کو قانون شکنی کی کھلی اجازت دے کر پارکنگ ایریاز اور اسپورٹس ایریاز کیلئے مختص مقامات پر بھی فلیٹس تعمیر کردئیے جاتے ہیں جبکہ مقررہ منزلوں کی تعداد سے زائد غیر قانونی تعمیرات کی کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔

غیر قانونی تعمیرات سے سہولیات کی کمی 

چھوٹے پلاٹس جن میں 40 گز سے 200 گز تک کے پلاٹس شامل ہیں ، ان پر قانونی طور پر گراؤنڈ + ون یعنی 2 منزلیں تعمیر کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے تاہم کراچی میں اندھیر نگری یہ ہے کہ ان پر بھی 7 سے 8 منزلہ غیر قانونی تعمیرات انسانی زندگیوں کیلئے ہر وقت خطرہ بنی ہوئی ہیں۔

اس منصوبے کے رہائشیوں سے پارکنگ اور کھیلوں کی سہولت چھن جاتی ہے اور لوگ ایک کھلی فضا میں سانس لینے اور رہائش کی بجائے دڑبوں میں بند ہو کر رہ جاتے ہیں۔ 

غیر قانونی تعمیرات سے ان علاقوں میں آبادی بھی 4 سے 10 گنا بڑھ جاتی ہے یعنی 1 گلی میں اگر 20 مکانات ہیں اور ان میں 40 خاندان رہائش پذیر ہیں تو پورشنز بننے کے بعد اسی گلی میں 120 پورشنز بننے سے ان میں اتنے ہی خاندان رہائش اختیار کر لیتے ہیں جس سے اس گلی میں فراہم کی گئی سہولیات مثلاً پانی، بجلی، گیس اور سیوریج کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔

گلیاں تنگ ہوجاتی ہیں۔ آمدورفت میں دشواری، گاڑیوں کی پارکنگ کے مسائل اور تازہ ہوا گلیوں میں آنا بند ہوجاتی ہے جس سے سانس کی اور دیگرمختلف جسمانی و نفسیاتی بیماریاں جنم لینے لگتی ہیں۔

ایس بی سی اے کی کارروائی

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران ایسی غیر قانونی تعمیرات کے خلاف جب کوئی درخواست موصول ہوتی ہے تو اس پر کارروائی کی بجائے ایسی عمارت کے مالکان اور مکینوں کو خوفزدہ کرکے بھاری رقومات مبینہ طور پر اینٹھ لیتے ہیں۔

دوسری طرف سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک پٹیشن میں ایس بی سی اے کو جب غیرقانونی اور مخدوش عمارات کی فہرست تیار کرنے کا حکم دیا تو اس حکم کو بھی افسران نے کیش کراتے ہوئے متعلقہ عمارتوں کے مکینوں سے بھاری رقوم وصول کرکے ان غیر قانونی عمارتوں کو فہرست میں شامل نہیں کیا اور سپریم کورٹ کو بھی دھوکا دیا۔

جب تک ان غیر قانونی تعمیرات میں ملوث ایس بی سی اے افسران اور نام نہاد پورشنز مافیا کے خلاف سخت کارروائی نہیں ہوگی اور ان کو عبرت ناک سزا نہیں ملے گی، غیر قانونی تعمیرات اسی طرح جاری رہیں گی اور لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگی رہیں گی۔

مسائل کا حل

عدالت کی طرف سے احکامات آتے ہیں کہ کراچی کنکریٹ کا جنگل بن گیا ہے اور کراچی سے تمام غیر قانونی تعمیرات ختم کی جائیں جس کے بعد بڑے پیمانے پر ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کردیا جاتا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بلند و بالا غیر قانونی تعمیرات کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا جنہیں ختم کرنا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔

سندھ حکومت کے تحت چلنے والی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے بدعنوان عناصر کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ضروری ہے تاکہ شہرِ قائد کو قانونی اور قابلِ رہائش حالت میں بحال کیا جاسکے۔ سپریم کورٹ اگر غیر قانونی عمارتیں ختم کرنا چاہتی ہے تو پہلے ایس بی سی اے سے بدعنوانی کو ختم کرے، اس کے بعد ہی صورتحال میں کسی بہتری کی توق کی جاسکتی ہے۔ 

 

Related Posts