کراچی: صارم قتل کیس میں پولیس کی تفتیش کے دوران بچوں کے معلم کے کمرے سے حیرت انگیز چیزیں سامنے آئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق نارتھ کراچی میں سات سالہ صارم کے قتل کی تفتیش کے سلسلے میں تفتیشی پولیس نے ایک مدرسے کے موذن کے گھر پر چھاپہ مارا، جہاں سے جنسی ادویات برآمد کی گئیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ موذن حارث کے موبائل سے نازیبا ویڈیوز بھی ملی ہیں اور وہ حیدرآباد کے ایک بچے سے بھی رابطے میں تھا، جسے وہ غلط میسجز بھیجتا رہا۔
تفتیشی پولیس نے بتایا کہ معلم مدرسے کے اوپر ہی ایک کمرے میں رہتا تھا اور موذن حارث اس وقت حراست میں ہے۔ پولیس حکام نے بتایا کہ فارنزک لیب نے مزید وقت کی درخواست کی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جامعہ کراچی کی لیب نے بتایا ہے کہ صارم کے جسم سے کئی سیمپلز اٹھائے گئے ہیں، لیکن بدقسمتی سے تاحال کوئی کامیابی نہیں ملی۔
یہ واضح ہے کہ 20 جنوری کو پولیس افسر نے تصدیق کی تھی کہ کراچی میں نارتھ کراچی کے رہائشی سات سالہ متوفی بچے صارم کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آیا۔ عباسی شہید ہسپتال کے میڈیکو لیگل آفیسر ڈاکٹر غضنفر علی شہریار کی تیار کردہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بچے کے ساتھ جنسی تشدد کی نشاندہی کی گئی تھی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ متوفی بچے کے جسم کے مختلف حصوں پر 12 مختلف زخم موجود تھے، جن میں سے 11 زخم “اینٹی مارٹم” یعنی موت سے پہلے کے تھے۔ 18 جنوری کو نارتھ کراچی کے علاقے میں 11 روز سے لاپتا سات سالہ بچے صارم کی لاش گھر کے قریب زیر زمین پانی کے ٹینک سے ملی تھی۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ پانی کے “وال مین” نے بدبو آنے پر بچے کی لاش کی اطلاع یونین کو دی تھی۔ ننھے صارم کی لاش زیر زمین ٹینک سے نکال لی گئی تھی، جو کہ گتے سے ڈھکا ہوا تھا اور اس کی کوئی احتیاطی تدبیر اختیار نہیں کی گئی تھی۔ پولیس نے ٹینک کو پہلے بھی چیک کیا تھا، مگر اس وقت لاش کے شواہد نہیں ملے تھے۔
نوجوان کی محبت میں کراچی آنیوالی امریکی خاتون کو 2 شہریوں کی شادی کی پیشکش
صارم کی گمشدگی کا معاملہ سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی سطح پر آیا تھا، جس کے بعد گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے بچے کے گھر جا کر والدین سے اظہار یکجہتی کیا تھا۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم “ساحل” کی اگست کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں ملک بھر میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے 1630 کیسز رپورٹ ہوئے۔
سال 2024 کے ابتدائی 6 ماہ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 862، اغوا کے 668، گمشدگی کے 82 اور کم عمری کی شادیوں کے 18 کیسز رپورٹ ہوئے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ رپورٹ ہونے والے کل کیسز میں سے 962 متاثرین میں 59 فیصد لڑکیاں تھیں، جبکہ 668 یعنی 41 فیصد لڑکے تھے۔