وزیرِ اعظم کے معاونینِ خصوصی کے اثاثوں کی طویل فہرستیں اور غریب عوام کا مستقبل

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزیرِ اعظم کے معاونینِ خصوصی کے اثاثوں کی طویل فہرستیں اور غریب عوام کا مستقبل
وزیرِ اعظم کے معاونینِ خصوصی کے اثاثوں کی طویل فہرستیں اور غریب عوام کا مستقبل

گزشتہ روز وزیرِ اعظم عمران خان کی ہدایت پر معاونینِ خصوصی و مشیران کے تمام تر اثاثوں کی طویل فہرستیں جاری کردی گئیں جس کے بعد غریب عوام کو اپنے مستقبل کی فکر ستانے لگی ہے۔

جاری کی گئی فہرستوں کے مطابق متعدد معاونینِ خصوصی کروڑوں کی نہیں بلکہ اربوں کی جائیدادوں اور اثاثہ جات کے مالک ہیں جو وطن میں اور وطن سے باہر بھاری بھرکم جائیدادوں کے مالک ہیں۔

اثاثہ جات کی تفصیل

پٹرولیم کے معاونِ خصوصی ندیم بابر 2 ارب 75 کروڑکے اثاثوں کے مالک ہیں اور ملک میں اور ملک سے باہر 24 سے زائد کمپنیاں ایسی ہیں جن میں ندیم بابر شیئرز رکھتے ہیں۔

عمران خان کے مشیر ڈاکٹر عشرت حسین 1 ارب 70 کروڑ سے زائد اثاثہ جات کے مالک ہیں جن کی امریکا میں 3 جائیدادیں ہیں۔ مشیرِ تجارت رزاق داؤد 1 ارب 35 کروڑ سے زائد کے مالک ہیں۔

عبدالرزاق داؤد کی اہلیہ 40 کروڑ سے زائد اثاثہ جات رکھتی ہیں  اور زلفی بخاری جو سمندر پار پاکستانیوں کے معاملات پرمعاونِ خصوصی ہیں اٹک میں 1300 کنال سے زائد زمین اور اسلام آباد میں 30 سے زائد پلاٹس کے مالک ہیں۔

زلفی بخاری برطانیہ میں 48 لاکھ پاؤنڈ کے فلیٹ کے ساتھ ساتھ 4 لاکھ 25 ہزار پاؤنڈ کے سامان کے بھی مالک ہیں۔ بیرونِ ملک ایسی 6 کمپنیاں ہیں جن میں زلفی بخاری شیئرز رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے اثاثہ جات 30 کروڑ سے زائد ہیں۔ 2 کروڑ زرعی عباسی اور اہلیہ کے نام دبئی میں 13 کروڑ کا گھر موجود ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ 15 کروڑ سے زائد اثاثہ جات کے مالک ہیں۔

خاندانی کاروبار میں جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ 31 لاکھ کے شیئرز رکھتے ہیں جو اہلیہ کے نام پر لیے گئے۔ 4 ہزار سے زائد امریکی ڈالرز اور 2 لاکھ 92 ہزار روپے بینک اکاؤنٹس میں بھی موجود ہیں۔

سیاسی امور کے معاونِ خصوصی  شہباز گِل 11 کروڑ 85 لاکھ سے زائد اثاثے رکھتے ہیں تاہم ان پر 2 کروڑ 42 لاکھ کے واجبات بھی ہیں۔ شہزاد اکبر 10 کروڑ جبکہ ندیم افضل 1 کروڑ21 لاکھ کے اثاثہ جات کے مالک ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کے معاونِ خصوصی شہزاد ارباب 12 کروڑ 73 لاکھ جبکہ شہزاد سید قاسم 97 لاکھ پاکستانی اور عرب امارات کی لاکھوں ڈالرز کی جائیدادیں اور متعدد کمپنیوں میں شیئرز بھی رکھتے ہیں۔

شہزاد ارباب یو اے ای کے ساتھ ساتھ امریکا میں بھی 6 سے زائد اکاؤنٹس کے مالک ہیں جبکہ معاونِ خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر 6 لاکھ 47 ہزار سے زائد رقم کی مالک ہیں جن کے شوہر تقریباً ڈیڑھ کروڑ کے مالک ہیں۔

دوہری شہریت لایعنی مسئلہ 

یہاں اپوزیشن اور عوام الناس کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ معاونینِ خصوصی اگر دوہری شہری کے حامل ہیں تو ان کی پاکستان سے وابستگی تو مشکوک ہوگئی، پھر وہ اپنے عہدوں پر برقرار کیسے ہیں؟

اِس کا جواب یہ ہے کہ امریکا کا گرین کارڈ شہریت نہیں ہوتی۔ معاونینِ خصوصی کو نااہل اِس لیے قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ قانون دوہری شہریت رکھنے والوں کو کام کرنے کی اجازت دیتا ہے کیونکہ معاونینِ خصوصی حلف اٹھانے کے پابند نہیں۔

معاونینِ خصوصی کی تردید

دوسری جانب معاونِ خصوصی شہباز گِل نے دوہری شہریت رکھنے کی خبر کی تردید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں صرف پاکستانی شہری ہوں اور میرے پاس کسی اور ملک کی نہ شہریت ہے اور نہ ہی پاسپورٹ۔

قبل ازیں معاونِ خصوصی ندیم افضل چن بھی دوہری شہریت کی تردید کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کا شہری نہیں ہوں کیونکہ پی آر کارڈ اور شہریت میں فرق ہوتا ہے۔ 

سوشل میڈیا پر ردِ عمل

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صارفین نے ملا جلا ردِ عمل دیا جبکہ ایس اے پی ایم یعنی معاونِ خصوصی کے نام سے ایک ٹاپ ٹرینڈ سیٹ کرنے کی کوشش بھی کی گئی، تاہم اب تک یہ زیادہ مشہور نہیں ہوسکا۔

عوام نے ٹوئٹر پر مختلف ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کا یہ اقدام قابلِ تعریف ہے کہ معاونینِ خصوصی کی جائیدادیں عوام کے سامنے لائی گئیں۔ کچھ لوگ اِس غلط فہمی کا شکار بھی ہوئے کہ دوہری شہریت کے باعث نااہلی لازمی ہے تاہم زیادہ تر افراد کا ردِ عمل مثبت رہا۔

غریب عوام کا مستقبل

وزیرِ اعظم عمران خان کی وطن کے ساتھ محبت اور دیانتدار حکومت پر عوام کو کوئی شک نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ غریب عوام کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے تاہم کروڑوں اربوں کی جائیدادیں عوام کو کسی قدر حیرت میں ضرور مبتلا کرتی ہیں۔

بعض سوشل میڈیا صارفین نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ اگر معاونینِ خصوصی دوہری شہریت رکھتے ہیں تو پاکستان کے ساتھ ان کی وابستگی اپنے آپ میں سوالیہ نشان ہے اور لمبی چوڑی جائیدادیں رکھنے والے اپنی جائیدادوں کی حفاظت کریں گے یا عوام کے حقوق کا تحفظ؟

دوسری جانب دیگر سوشل میڈیا صارفین کی رائے اِس کے برعکس ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ زیادہ اثاثے یا جائیدادیں کسی شخص کی بد دیانتی پر کوئی مہر ثبت نہیں کرتیں کیونکہ صاحبِ کردار لوگ غربت اور امارت کا امتیاز کیے بغیر دیانتداری سے فرائض سرانجام دے سکتے ہیں۔

Related Posts