سلمان فاروقی تشدد کیس؛ مدعی لاچار یا قانون کمزور؟

مقبول خبریں

کالمز

zia-1-1-1
بازارِ حسن سے بیت اللہ تک: ایک طوائف کی ایمان افروز کہانی
zia-1-1-1
اسرائیل سے تعلقات کے بے شمار فوائد؟
zia-1-1
غزہ: بھارت کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

(فوٹو؛ فائل)

کراچی کے علاقے ڈیفنس خیابان اتحاد میں نوجوان پر تشدد کا معاملہ قانونی طور پر اختتام کو پہنچ گیا مگر اس فیصلے نے معاشرے میں انصاف کے پیمانے اور طبقاتی تفریق پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔

پولیس نے کیس بند کر دیا، عدالت نے رپورٹ قبول کر لی

جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ مدعی نوجوان دھیرج عرف دھن راج نے مزید قانونی کارروائی سے انکار کر دیا ہے۔ پولیس رپورٹ میں کہا گیا کہ مدعی نے تحریری بیان میں اس بات کی بھی تردید کی کہ اس کے یا اس کی بہن کے ساتھ کوئی بدتمیزی یا دھمکی دی گئی ہو۔ عدالت نے یہ رپورٹ ریکارڈ کا حصہ بنا کر سماعت آئندہ تاریخ تک ملتوی کر دی۔

واقعہ کیا تھا؟

چند ہفتے قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا گیا کہ ایک شخص، جس کی شناخت سلمان فاروقی کے طور پر کی گئی، نے ایک موٹرسائیکل سوار نوجوان کو اس کی بہنوں کے سامنے بے رحمی سے زد و کوب کیا۔ ویڈیو میں واضح طور پر منت سماجت کرنے والے مناظر بھی دکھائی دیے، جس کے بعد عوامی دباؤ پر مقدمہ درج ہوا۔

کیا غریب صرف انصاف کے خواب دیکھ سکتا ہے؟

یہ معاملہ صرف ایک شخص پر تشدد کا نہیں، بلکہ طاقتور اور کمزور کے درمیان طاقت کے توازن کا عکاس بھی ہے۔

مدعی کی طرف سے اچانک قانونی مؤقف کی تبدیلی اور پولیس کی جانب سے مقدمہ ختم کرنے کی رفتار بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے۔

1. کیا متاثرہ واقعی اپنی مرضی سے پیچھے ہٹا؟

ایسے بیشتر کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ متاثرہ فریق یا تو دباؤ میں آ جاتا ہے یا پھر معاوضے یا دھمکیوں کے باعث خاموشی اختیار کرتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ معاشی بدحالی یا قانونی جنگ کا طویل بوجھ متاثرہ کو مقدمہ آگے بڑھانے سے روک دے۔

2. کیا ہمارا انصاف صرف بااثر کے لیے ہے؟

یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر سوشل میڈیا پر ویڈیو نہ آتی تو کیا یہ کیس سامنے آتا؟ اور اگر سامنے آیا، تو اتنی جلدی کیوں دب گیا؟ کیا عدالتیں اور پولیس صرف غریب کی خاموشی سے مطمئن ہو جاتی ہیں؟

3. قانونی نظام کی سستی یا بے حسی؟

یہ کیس ایک بار پھر ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے عدالتی اور تفتیشی ادارے اکثر اوقات غریب اور طاقتور میں فرق روا رکھتے ہیں۔ قانون کی روح مساوات پر ہے، مگر عملدرآمد اکثر طبقاتی بنیادوں پر ہوتا ہے۔

نتیجہ: انصاف صرف کاغذ پر؟

سلمان فاروقی پر مقدمے کا اختتام شاید قانونی ہو، مگر اخلاقی اور سماجی انصاف ابھی باقی ہے۔ اگر معاشی اور سماجی طور پر کمزور شہری صرف طاقتوروں کی مہربانی یا دباؤ پر انصاف سے دستبردار ہونے لگیں، تو یہ عمل صرف انصاف کی نفی نہیں بلکہ معاشرے کے اعتماد کی موت بھی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے معاملات میں ریاست خود مدعی بنے اور انصاف کو فرد کی مرضی پر نہیں، قانون کی بالادستی پر چلایا جائے۔

Related Posts