پاکستان 241 ملین کی آبادی کا ملک ہے جو رواں سال جون میں مالیاتی بحران کی وجہ سے ڈیفالٹ کے دھانے پر تھا، تاہم بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے 3 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام کی منظوری کے بعد پاکستان کی 350 بلین ڈالر کی معیشت ڈیفالٹ کے خطرے سے بالآخر بچ گئی۔
کاروبار سے متعلق بحران کو کم کرنے اور کسی بھی بحران سے بچنے کے لیے پاکستان 50 بلین ڈالر سے زائد کی بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے، تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان کا آئرن برادر سمجھا جانے والا چین پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے متوقع منصوبوں سے مکمل طور پر دور ہو چکا ہے۔ ان منصوبوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں پاکستان خلیجی ممالک کی سرمایہ کاری لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان منصوبوں میں گوادر میں سعودی آرامکو ریفائنری، تاپی گیس پائپ لائن، تھر کول ریل کنیکٹیویٹی، گلگت بلتستان میں 245 میگاواٹ کے پن بجلی کے منصوبے اور ٹیلی کام سیکٹر کے پروجیکٹ شامل ہیں۔ دریں اثنا ریڈیو پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان میں 25 بلین ڈالر تک کی سرمایہ کاری پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاری اور امداد کی مد میں تقریباً اتنی رقم پر رضامندی کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے سرمایہ کاری کی مد میں تمام تر امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، تاہم ان تمام منصوبوں سے چین کے ممکنہ اخراجات مکمل طور پر غائب ہیں۔ حالانکہ بیرونی سرمایہ کاری کے شعبے میں دیکھا جائے تو بالخصوص گزشتہ 10 سال کے دوران پاکستان میں سب سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری چین کی ہی رہی ہے۔ چین واحد ملک ہے جس نے گزشتہ 10 برسوں میں پاکستان کو معاشی طور پر بہت زیادہ معاونت بہم پہنچائی۔ موجودہ حالات میں چین کی مالی مدد ملتی تو بلاشبہ پاکستان مسترد نہ کرتا، مگر لگتا ہے چین کی جانب سے سرد مہری دکھائی جا رہی ہے اور یہ صورتحال پاکستان کے تئیں بیجنگ کے بدلے ہوئے رویے کی طرف اشارہ کرتی ہے، اندازہ ہوتا ہے کہ چین مستقبل میں پاکستان میں کوئی بڑی رقم لگانے یا پاکستان کو قرض فراہم کرنے کے حوالے سے کسی طرح بھی پرجوش نہیں ہے۔
پاکستان کے بعض اندرونی مسائل کی وجہ سے چین پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے مطمئن نہیں ہے، چین سمجھتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ جڑے کچھ مسائل جب تک حل کی راہ نہ پائیں، اس کی معیشت کو سہارا دینے کی کوششوں کا کچھ فائدہ نہیں ہے۔ صاف لفظوں میں کہا جائے تو درحقیقت چین کو پاکستان کی سیاسی دو رخی سے شکایت ہے۔ چین سمجھتا ہے کہ پاکستان مغرب کے حوالے سے اپنے کچھ مخصوص تعلقات کے باعث چینی سرمایہ کاری کے سلسلے میں مغربی مفادات کو بھی ترجیح دیتا ہے، جس کی زد واضح طور پر چینی مفادات پر بھی پڑتی ہے۔
سرمایہ کاری کی راہ میں ایک اور اہم رکاوٹ پاکستان کے اندر بد انتظامی بھی ہے، یہ مسئلہ حل کرنے کیلئے سابقہ شہباز انتظامیہ پاک فوج کی خصوصی دلچسپی سے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام عمل میں لاچکی ہے، چنانچہ اس کونسل کی بی ہاف پر عبوری حکومت مختلف بیرونی فنانسرز کو پاکستان کے بہت سے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کیلئے کوشاں ہے، جن میں کاشتکاری، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کان کنی وغیرہ شامل ہیں۔ ان شعبوں میں سرمایہ کاری یقیناً روزگار کے مواقع میں اضافہ کرے گی۔
چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے تحت اب تک انفراسٹرکچر سمیت بہت سے شعبوں میں متعدد منصوبے مکمل ہوچکے ہیں، جن سے پاکستان کی معیشت کو بڑا سہارا حاصل ہوا ہے۔
سی پیک نے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کیلئے زمین بہت حد تک ہموار کر دی ہے۔ سی پیک نے جو رہنما خطوط پاکستان کو فراہم کردیے ہیں، ان پر چل کر دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں بڑی مدد ملے گی، جس سے پاکستان کی معیشت میں مزید استحکام آئے گا۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے درمیان چارٹر آف اکانومی پر اتفاق رائے پیدا نہ ہونا بیرونی سرمایہ کاری کیلئے بڑی مایوسی کا باعث تھا، تاہم گزشتہ دور میں سرمایہ کاری سہولت کونسل کی تشکیل نے بیرونی سرمایہ کاروں کو بڑی حد تک اعتماد بخشا ہے، اس سے امید ہے کہ آنے والے دنوں میں بیرونی سرمایہ کاری کے شعبے میں مثبت خبریں ملیں گی۔
سرمایہ کاری سہولت کونسل یقینا بہت اہم اور قابل قدر پیشرفت ہے، اس کا افتتاح وزیراعظم ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران کیا گیا، جس کی صدارت اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف نے کی اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے بھی بطور خاص اس میں شرکت کی۔ وزرائے اعلیٰ اور اہم وفاقی و صوبائی وزراء بھی موجود تھے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے برآمدات پر مبنی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا جبکہ آرمی چیف نے قومی خوشحالی کے لیے سہولت کونسل کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فوج کی مکمل حمایت کا وعدہ کیا۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد مرکز اور صوبوں کے درمیان سرمایہ کاری کے حوالے سے تعاون کو فروغ دینا ہے تاکہ بروقت فیصلہ سازی کی روایت قائم ہو۔
اگرچہ سی پیک نے بنیادی ڈھانچے کے کئی بڑے منصوبے دیے ہیں، لیکن یہ پائیدار ترقی پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کے بجائے اس نے پاکستان کے بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں میں اضافہ کیا ہے، جو 120 بلین ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں، جس کا ایک تہائی چین کا ہے۔ تاہم اپنے دیگر مقروض ملکوں کے مقابلے میں بیجنگ ممکنہ طور پر اسلام آباد کے ساتھ تعاون کو ہمیشہ ترجیح دیتا ہے، کیونکہ اسے بھارت کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مضبوط پاکستان کی ضرورت ہے۔
اگرچہ بہت سے لوگ سرمایہ کاری سہولت کونسل کی سربراہی فوج کے حوالے کرنے پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں اب فوج سیاست کے بعد ملکی معیشت کا کنٹرول بھی اپنے ہاتھ میں لے گی، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فوج ملک کو درپیش بحرانوں سے خود کو دور نہیں رکھ سکتی۔ جیسے جیسے یہ بحران بڑھتے جا رہے ہیں، چین اپنے تزویراتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کم از کم تین اختیارات استعمال کر سکتا ہے۔ سب سے پہلے چین پاکستانی فوج کے ساتھ اپنے تعلقات کے ذریعے مستقبل کی پاکستانی سویلین حکومتوں سے مزید رعایتوں پر بات چیت کر سکتا ہے تاکہ زیادہ چینی فرموں کو زیادہ منافع بخش ٹھیکوں سے نوازا جا سکے۔ چونکہ پاکستان چین کا 30 بلین ڈالر سے زیادہ کا مقروض ہے، اس لیے بیجنگ اپنے فنڈنگ نل کو آن رکھنے کے لیے پاکستان سے بیش از بیش رعایتیں سمیٹنے کی پوزیشن میں ہے۔ دوسرا بیجنگ سرمایہ کاری اور قرضوں میں تاخیر یا کمی کے حوالے سے پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ تیسرا تیزی سے بگڑتے سیکیورٹی ماحول کی وجہ سے چین پاکستانی حکومت اور فوج سے مطالبہ کر سکتا ہے کہ وہ اپنی سرمایہ کاری اور شہریوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد اور باغی گروہوں کے خلاف مزید ٹھوس کارروائی کریں۔
اگرچہ امن و سلامتی کا ایک مستحکم ماحول بہت اچھی بات ہے، لیکن اس راہ میں کچھ خطرات بھی ہیں کہ امن کے قیام کے چکر میں الٹا بڑے پیمانے پرعدم اطمینان اور تشدد کو ہوا نہ ملے، کیونکہ ایک غیر ملکی طاقت کے کہنے پر فوجی کارروائی پاکستانی ریاست اور معاشرے کے درمیان دراڑ کو مزید وسیع کر دے گی، جس سے اندرونی اور بیرونی استحصال کے راستے کھلیں گے، بالخصوص افغانستان میں پناہ لینے والے دہشت گرد گروہوں کو ملک کا امن و امان تہ و بالا کرنے کیلئے ایک بہانہ ہاتھ آئے گا۔