ہے دُعا یاد مگر حرفِ دُعا یاد نہیں، ساغرّ صدیقی کی وفات کو 46 برس مکمل ہوگئے

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اردو ادب کی تاریخ میں بہت کم ایسے شعراء گزرے ہیں جنہیں شہرت اور عروج نصیب ہوا ہو جبکہ ساغرؔ صدیقی شاعری کے افق کا وہ ستارہ ہے جس کی چمک آج بھی نئی نسل کی آنکھوں کو خیرہ کرنے میں مصروف ہے۔ ساغرؔ کی وفات کو آج 46 سال مکمل ہوگئے ہیں۔

زبان و بیان، ابلاغ اور شاعری کے رموز سے جو واقفیت ساغرؔ صدیقی کو حاصل تھی، بہت کم شعراء کو نصیب ہوتی ہے تاہم ساغرؔ کی زندگی شدید مشکلات، غربت اور تنگدستی میں گزری۔ اس کے باوجود سرمستی و سرشاری اور جذب کی کیفیت ساغرؔ کی شاعری میں جا بجا نظر آتی ہے۔

ہے دُعا یاد مگر حرفِ دُعا یاد نہیں

میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں

زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں

بے شمار شعراء کو جگرؔ مراد آبادی جیسے نابغۂ روزگار شاعر کی صدارت میں اشعار سنانے کا شرف حاصل ہوا ہوگا، تاہم جو تاریخی واقعہ ساغرؔ کی موجودگی میں پیش آیا، کسی اور شاعر کو کبھی نصیب نہ ہوسکا۔ جگرؔ نے وہ کاغذ ہی پھاڑ کر پھینک دیا جس پر اپنی غزل لکھی تھی اور کہا کہ ساغر کی غزل ہی آج کے مشاعرے کا حاصل ہے۔

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں

ورنہ اِن تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں؟

شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جھوم کر

وہ پتنگا جل تو جاتا ہے، فنا ہوتا نہیں 

جی میں آتا ہے اُلٹ دیں ان کے چہرے سے نقاب

حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں

ہائےیہ بے گانگی، اپنی نہیں مجھ کو خبر

ہائے یہ عالم کہ تو دل سے جدا ہوتا نہیں

ترقی پسندی اور روایت پسندی کی بحث اپنی جگہ، لیکن ساغرؔ صدیقی کی شاعری پر دونوں ہی مکاتبِ فکر کے شعراء، ناقدین اور ادب کے شائقین فریفتہ نظر آتے ہیں۔بے مثال شاعری کے باعث ساغرؔ کو اردو شاعری کے کسی بھی دور میں بھُلایا نہیں جاسکتا۔ 

Related Posts