اشیائے خوردونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور حکومتی اقدامات

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کھانے پینے کی اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتیں سب سے زیادہ ایک عام آدمی کو متاثر کرتی ہیں ، غذا کی قیمتوں میں اضافے کا غریب گھرانوں پر تباہ کن اثر پڑتا ہے معاشرے کے کمزور طبقات کے لئے2 وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہوتاجارہا ہے۔

عوام کی بگڑتی معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے جلد ہی راشن کارڈ اسکیم متعارف کرانے کا اعلان کررکھا ہے جس کے تحت ہر ماہ یوٹیلٹی اسٹورز پر 3000 روپے مالیت کی بنیادی اشیاء کی خریداری ممکن ہوسکے گی، معاشرے کے نچلے طبقات پر بوجھ کم کرنے کے لیے یہ احسن اقدام ہے۔

حکومت نے 7 ارب روپے کا ریلیف پیکج بھی شروع کیا ہے جس کے تحت ضروری اشیا سستی نرخوں پر ملک بھر میں یوٹیلیٹی اسٹوروں پر فروخت کی جائیں گی جس سے یہ یقینی بنایاجاسکے گابنیادی گھریلو اشیائے خوردونوش مثلاً آٹا ، تیل ، چینی ، دالوں اور دیگر ضروری اشیاء کو ارزاں نرخوں پر فروخت کیا جائے۔

تشویشناک امر یہ ہے کہ ملک کے مرکزی بینک نے بھی غذائی اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر شدید تشویش کا اظہارکیا ہے ، اسٹیٹ بینک جو ہمیشہ معاشی اشاروں پر مثبت اظہار کرتا ہے ، اس کی طرف سے بھی کہا گیا ہے غذائی اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتیں پاکستانی معیشت کے لیے بہت بڑا چیلنج بنی ہوئی ہیں۔

غذائی اشیاء کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی بڑی وجوہات میں ذخیرہ اندوزی اور تجارتی رکاوٹیں شامل ہیں جس سے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر قابو پانا چیلنج بن گیا ہےاور 2020 میں صورتحال مزید بدترین ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس کے برعکس فنانس ڈویژن کے مطابق اشیائے خوردونوش کی کی افراط زر میں کمی واقع ہوئی ہے اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کا امکان ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے مطابق خوردنی تیل مہنگا ہونے کی وجہ بین الاقوامی منڈی میں بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں اور حکومت کی توجہ مقامی پیداواری اشیاء کو بڑھانے پرہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کا سب سے زیادہ بوجھ عام آدمی پر پڑتا ہے جبکہ بڑے صنعتکار اور بیوپاری اس اضافے کے ثمرات حاصل کرتے ہیں۔

پاکستان ہر سال 1 ارب 50 کروڑ ڈالر کی دالیں بھی در آمدکرتا ہے جو کہ انتہائی افسوس کا مقام ہےایسے ملک کے لیے جہاں صنعت کا 2 تہائی حصہ زراعت سے وابستہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں ، شہری علاقوں کی طرف ہجرت ، بڑھتے ہوئے تنازعات، قدرتی وسائل میں کمی کی وجہ سے ملک میں زراعت کے شعبے کوبڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے، اس کے باوجود حکومتیں جامع زراعت کی پالیسی پر عملدر آمد کرنے میں ناکام نظرآتی ہیں۔

جس کے باعث غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہورہا ہے اور عوام کے لیے صحت منداور غذائیت سے بھر پور اشیاء تک رسائی مشکل ہوتی جارہی ہے، وزیر اعظم پہلے ہی پاکستان میں بڑھتی ہوئی غذائی قلت اور بچوں میں بڑھتی ہوئی شرح نمو پر خطرے کی گھنٹی بجا چکے ہیں، ان چیلنجوں کا ازالہ کرنا اور زراعت کے شعبے پر مناسب توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے، ترقیاتی اسکیموں کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت عوام کے مسائل کا احساس کرے۔

Related Posts