کراچی: پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم میں پہلی بار شامل ہونے والے فاسٹ بولر عامرجمال کی کہانی مسلسل محنت اور حوصلہ نہ ہارنے کی بہترین مثال ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی سے حاصل ہونے والے اپنے تجربے کی بنیاد پر بڑے واضح انداز میں یہ کہتے ہیں کہ زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔
عامرجمال پی سی بی کے ڈیجیٹل انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ یہ ایک پورا عمل ہے جس سے آپ کو گزرنا ہے اور اس کے بعد ہی انسان اس کی اہمیت کو سمجھ سکتا ہے کہ اس نے کیا حاصل کیا ہے۔
عامر جمال کا کریئر اتارچڑھاؤ کا شکار رہا ہے، 2014ء میں انہوں نے انٹر ریجنل انڈر19 ٹورنامنٹ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانچ میچوں میں 30 وکٹیں حاصل کی تھیں جس کے بعد انہیں افغانستان کے خلاف لاہور میں ہونے والی انڈر 19 سیریز کے لیے پاکستانی اسکواڈ میں شامل کرلیا گیا تھا۔
عامرجمال کو اس کے بعد فرسٹ کلاس کرکٹ میں آنے کے لیے چار سال لگ گئے جب انہوں نے2018 میں پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف سے اپنے فرسٹ کلاس کریئر کی ابتدا کی پھر 21-2020ء کے سیزن سے وہ ناردن کی ٹیم کی طرف سے کھیلتے ہوئے فرسٹ کلاس کرکٹ کے دھارے میں شامل ہوگئے۔
عامر جمال اسوقت پوری قوم کی توجہ کا مرکز بن گئے جب انہوں نے انگلینڈ کے خلاف لاہور میں کھیلے گئے پانچویں ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں آخری اوور میں معین علی کے خلاف پندرہ رنز کا کامیابی سے دفاع کرتے ہوئے پاکستان کو سیریز میں تین دو سے سبقت دلادی۔
اس سیریز کے فوراً بعد عامر جمال نے ایبٹ آباد پہنچ کر قائداعظم ٹرافی میں اپنی ٹیم جوائن کی۔
27 سالہ عامر جمال کہتے ہیں کہ انہیں سلیکٹرز نے بتایا تھا کہ ٹیسٹ ٹیم میں کسی بھی بولر کے لیے جگہ حاصل کرنے کا موقع موجود ہے وہ ٹی ٹوئنٹی سیریز کی وجہ سے پہلے دو فرسٹ کلاس میچز نہیں کھیل پائے تھے لیکن وہ آرام کیے بغیر فوراً اپنی ڈومیسٹک ٹیم میں گئے حالانکہ ہیڈ کوچ اعجاز احمد نے انہیں آرام کا مشورہ دیا لیکن وہ فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے پر مصر تھے کیونکہ وہ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے لیے ٹیسٹ ٹیم میں جگہ بنانا چاہتے تھے۔وہ قائداعظم ٹرافی میں بہترین آل راؤنڈر بن کر دکھانا چاہتے تھے۔
اگرچہ عامر جمال کو ٹیسٹ ٹیم میں آنے کے لیے کچھ وقت انتظار کرنا پڑا لیکن وہ قائداعظم ٹرافی میں بہترین فاسٹ بولر کے طور پر سامنے آئے جبکہ مجموعی کارکردگی میں وہ تمام بولرز میں دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
عامرجمال نے29 اعشاریہ 71 کی اوسط سے31 وکٹیں حاصل کی تھیں اور ان کی ٹیم ناردن نے پہلی مرتبہ فرسٹ کلاس ٹائٹل جیتا۔عامر جمال نے اس سیزن میں بہترین انفرادی بولنگ کرتے ہوئے17 اوورز کے اسپیل میں بلوچستان کے خلاف 120رنز دے کر8 وکٹیں بھی حاصل کی تھیں۔
عامر جمال چار نومبر 2022کی تاریخ کبھی نہیں بھول سکتے اس کارکردگی کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ایبٹ آباد اسٹیڈیم میں وہ پہلے اسپیل میں کوئی وکٹ نہیں لے سکے تھے لیکن دوسرے اسپیل میں انہوں نے لگاتار سترہ اوورز کرائے تھے حالانکہ ان کے بولنگ کوچ سمیع اللہ نیازی ڈریسنگ روم سے انہیں مسلسل رکنے کا اشارہ کررہے تھے لیکن وہ ہر صورت میں ٹیسٹ ٹیم میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ پہلے ایک وکٹ ملی پھر دوسری پھر تیسری۔ اس طرح وہ وکٹیں لیتے گئے تھے۔ پانچ وکٹیں لینے کے بعد سمیع بھائی نے انہیں آرام کے لیے کہا لیکن انہوں نے ان سے کہا کہ انہیں بولنگ کرنے میں مزا آرہا ہے۔اس طرح انہوں نے پندرہ اوورز کراڈالے اسوقت تک وہ آٹھ وکٹیں حاصل کرچکے تھے جس پر سمیع بھائی نے ان سے کہا کہ نویں وکٹ کے لیے دو اوورز مزید کرالو لیکن پھر اعجاز بھائی نے آرام کا مشورہ دیا کہ ابھی آگے بھی میچز ہیں۔
عامر جمال کو پاکستان شاہینز کے دورہ زمبابوے میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا خوب موقع ملا۔ وہ ون ڈے سیریز میں 16 وکٹوں کے ساتھ سب سے کامیاب بولر ثابت ہوئے۔
عامر جمال میانوالی میں پیدا ہوئے اور اسلام آباد میں پلے بڑھے ہیں آج وہ جس طرح سب کے سامنے موجود ہیں اس میں ان کی2014 سے 2018تک چار سال کی سخت محنت کا عمل دخل نمایاں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انڈر نائنٹین کھیلنے کے بعد چار سال وہ بڑی کرکٹ نہیں کھیلے اس دوران وہ صرف چند گریڈ ٹو کے میچز کھیلے تھے اس کے بعد وہ آسٹریلیا چلے گئے اس کی وجہ ایک شخص کا ان کے کلب میں آکر کھیلنا اور ان کی محنت اور لگن سے متاثر ہونا تھا اس نے انہیں اسپانسرشپ آفر کی تھی اس دوران انہیں پاکستان انڈر 23ٹیم کے دورے کا پتہ چلا تو وہ فوراً پاکستان آگئے تھے تاہم وہ گریڈ ٹو کرکٹ میں کسی بھی ٹیم میں جگہ نہ بناسکے۔
عامر جمال بتاتے ہیں یہ وہ وقت تھا جب انہوں نے بینک سے لیز پر کار حاصل کی اور خود کو رائڈ ہیلنگ سروس سیرجسٹرڈ کرالیا کیونکہ انہیں گھر بھی چلانا تھا گھر والوں کی طرف سے زیادہ سپورٹ نہیں تھی۔وہ دو سال تک فجر کی نماز کے بعد گاڑی لے کر نکلتے اور کام شروع کردیتے صبح کی شفٹ میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ اور آفس جانے والے لوگ انہیں مل جاتے تھے پانچ بجے سے ساڑھے دس بجے کی شفٹ کے بعد وہ کسی آرام کے بغیر دو گھنٹے بولنگ کیا کرتے تھے۔
جو بھی کھانے کو مل جاتا کھالیتے اس کے بعد وہ بیٹنگ اور فیلڈنگ کی مشق کرتے۔ تین بجے سے سات بجے تک وہ دوسری شفٹ کرتے اس دوران کالجوں اور یونیورسٹیوں سے طلبہ اور دفتروں سے لوگ نکل رہے ہوتیتھے اور پھر وہ جم جاکر ایکسرسائز کیا کرتے تھے اور آخر میں آدھی رات تک ایک اور شفٹ میں وہ کام کیا کرتے تھے۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ جب وہ گھر پہنچتے تو سب سو چکے ہوتے تھے۔
عامر جمال کہتے ہیں کہ اس محنت نے ان میں نظم وضبط اور وقت کی پابندی کا احساس پختہ کردیا اور ساتھ ہی چیزوں کی اہمیت کا احساس بھی ہوگیا کیونکہ جب آپ محنت کرکے کچھ حاصل کرتے ہیں تو آپ کو اس کی اہمیت پتہ چلتی ہے۔
جب 2019 میں سری لنکا اور پاکستان نے پنڈی میں پہلا ٹیسٹ کھیلا تھا تو عامرجمال نیٹ بولر تھے اس دوران انہیں پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں اور مہارت کو قریب سے دیکھ کر خود میں بہتری لانے کا موقع ملا تھا۔اس کے بعد نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں فاسٹ بولرز کے کیمپ میں شریک ہوکر انہوں نے دوسروں سے زیادہ اوورز کرائے تاکہ سری لنکا کی سخت کنڈیشنز کے لیے خود کو تیار کرسکیں۔
مزید پڑھیں:وزیراعظم سے ملاقات، تمیم اقبال نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لے لیا
ان کا کہنا ہے کہ آل راؤنڈر کا ورک لوڈ زیادہ ہوتا ہے اور وہ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھ کر ٹریننگ کرتے آئے ہیں اور وہ کسی ایک دن بھی نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ٹریننگ سے غیرحاضر نہیں رہے۔ اس دوران وہ سینئر کرکٹرز سے بھی مشورے کرتے رہے ہیں جن میں امام الحق کا کہنا ہے کہ سری لنکا میں کنڈیشنز فاسٹ بولرز کے لیے بہت مشکل ہوتی ہیں لہذا انہیں ذہنی طور پر تیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر انہوں نے ذہنی طور پر ہمت ہاردی تو پھر جسم بھی ساتھ دینا چھوڑدے گا۔عامر جمال اپنا ٹیسٹ کریئراسی انداز سے شروع کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں جس طرح انہوں نے ٹی ٹوئنٹی کریئر شروع کیا تھا۔