شیخ حسینہ واجد کے بعد کا بنگلا دیش بہت سے پہلوؤں سے پہلے سے مختلف ہوچکا ہے، بالخصوص پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو اب صورتحال پہلے سے یکسر مختلف دکھائی دیتی ہے۔
بنگلا دیش نے شیخ حسینہ واجد کی طویل حکمرانی میں جہاں معاشی ترقی کے کئی سنگ میل عبور کیے اور معاشی ترقی کی رفتار میں بنگلا دیش خطے کے ممالک میں ایک مثال بن کر ابھرا، وہاں شیخ حسینہ واجد اور ان کی پارٹی کی جانب سے عملا بنگلا دیش کو ون پارٹی رول کی طرف لے جانے کی کوششوں نے عوامی سطح پر شدید اضطراب کو جنم دیا۔
شیخ حسینہ واجد اور ان کی جماعت عوامی لیگ نے اختیارات کے ارتکاز کی بھوک میں ہر مخالف رائے، شخصیت اور جماعت کو دیوار میں چننے کی راہ چنی جس سے بڑے مسائل پیدا ہوئے۔
بنگلا دیش کو اس خاص رخ پر ڈالنے کیلئے شیخ حسینہ نے پاکستان دشمنی اور بھارت نوازی میں ہر حد پار کی، تاہم پاکستان کی جانب سے ان کے کسی پاکستان مخالف جذبے اور اقدام کے خلاف کبھی کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔
مگر پاکستان اور پاکستانی یہ سب دیکھ رہے تھے، اسی دوران آخرکار جب شیخ حسینہ واجد کے خلاف طلبہ تحریک شروع ہوئی تو اسے پاکستان اور پاکستانیوں کی جانب سے زبردست اخلاقی اور جذباتی سپورٹ دی گئی۔
اور پاکستانیوں کے ان جذبات کو بنگلا دیش کے عوام بھی نوٹ کر رہے تھے، یہی وجہ ہے کہ اب شیخ حسینہ کے ایکسپل کے بعد پاکستان کے تئیں حالات یکسر بدل گئے ہیں۔
شیخ حسینہ کے بعد کے بنگال میں پاکستان کے حوالے سے کیا منظر نامہ ہے، اس کی ایک جھلک یوٹیوب پر موجود ایک ولاگ میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
ایک یوٹیوبر خاتون ڈھاکہ میں اپنی ولاگ میں عام بنگالیوں سے پاکستان کے متعلق کمنٹس لیتی دکھائی دیتی ہے جس میں بنگلا دیشی نوجوان پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ محبت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔
ولاگر کی جانب سے ایک سوال یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا پاکستان اور بنگلا دیش کو پھر سے اکہتر سے پہلے کی پوزیشن پر جانا چاہیے۔
بنگلا دیشی نوجوانوں کی بڑی تعداد نے حیران کن طور پر اس سوال کا بھی مثبت جواب دیا اور کہا کہ دونوں ملک ایک نہ بھی ہوسکیں تو انہیں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔