عالمی یوم آزادی صحافت اور فرائض پر قربان ہونیوالے صحافی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آج دنیا بھر میں عالمی یوم آزادی صحافت منایا جارہا ہے، اس سال اس دن کا موضوع ” خوف یا پسند کے بغیر صحافت “ہے۔عالمی یوم آزادی کے عالمی دن کو ہر سال عالمی برادری کو یہ بتانے کے لئے منایا جاتا ہے کہ پریس کی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی بنیادی انسانی حقوق کا حصہ ہیں۔

یہ دن لوگوں کو میڈیا کیلئے خدمات انجام دینے والوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے جنہوں نے اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر اپنی ذمہ داریاں پوری کیں اور اپنی زندگیاں گنوابیٹھے۔

اس دن میں متعدد تنظیمیں اور افراد مختلف تقریبات کا اہتمام کرکے دنیا کو باخبرکرنے کے لئے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے والے افراد کوایوارڈز سے بھی نوازاجاتا ہے ۔ تاہم اس سال جاری کورونا وائرس وبائی بیماری کی وجہ سے اس طرح کے کوئی پروگرام منعقد نہیں ہوئے ۔
آئیے یوم آزادی صحافت کے عالمی دن پرفرض کی راہ میں جانوں کا نذرانہ دینے والے صحافیوں کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں۔

عالمی دن کی تاریخ
عالمی یوم آزادی صحافت کا آغاز اقوام متحدہ کی ’جنرل اسمبلی‘ نے دسمبر 1993 میں ایک آزاد اور افریقی میڈیا کو فروغ دینے سے متعلق سیمینار کے نتیجے میں کیا تھا۔

1997 کے بعد سے ہر سال یونیسکو کی جانب سے ورلڈ پریس فریڈم ایوارڈ کسی ایسے فرد یا تنظیم کودیا جاتا ہے جو اظہار رائے کی آزادی کا دفاع یا اس کو فروغ دیتا ہے ، خاص طور پر اگر اس سے فرد کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ یہ ایوارڈ گیلرمو کینوکے نام پر رکھا گیا ہے ، یہ ایوارڈ کولمبیا کے ایک صحافی کے نام سے منسوب ہے جس کو منشیات مافیا کو بے نقاب کرنے پر قتل کردیا گیا تھا۔

پاکستان سے متعلق پریس فریڈم رپورٹ
فریڈم نیٹ ورک نے جمعہ کے روز پاکستان کے بارے میں پریس فریڈمینٹی رپورٹ جاری کی ، جس میں پاکستان میں صحافیوں کیساتھ ہونیوالی زیادتیوں ، دھمکیوں اور حملوں کا احاطہ کیا گیا۔

گذشتہ ایک سال کے دوران پاکستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے کم از کم 91 واقعات درج کیے گئے تھے – جس میں قتل ، حملے ، سنسرشپ اور دھمکیوں کے مقدمات شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مئی 2019 سے اپریل 2020 کے درمیان ، ایک ماہ میں اوسطاً سات سے زیادہ ناخوشگوار واقعات پیش آئے ۔
نتائج کے مطابق چار وں اکستانی صوبوں اوراسلام آباد اورکشمیر وگلگت بلتستان سمیت صحافیوں کے لئے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ تاہم 34 فیصد مقدمات کے ساتھ وفاقی دارالحکومت ایک خطرناک علاقہ قرار پایا۔

تشدد کے واقعات 27 واقعات کے ساتھ سندھ دوسرا بدترین علاہ رہا ، اس کے بعد پنجاب میں 22 فیصد واقعات ریکارڈ ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیلی وژن کے لئے کام کرنے والے صحافی سب سے زیادہ کمزور تھے کیونکہ انھیں 69مقدمات میں نشانہ بنایا گیا تھا۔

اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے صحافی
عوام کو حقائق اور اعداد و شمار فراہم کرنے کے لئے بہت سارے صحافی اور میڈیا کارکن اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:

ڈینیل پرل
وہ وال اسٹریٹ جرنل کے ایک امریکی صحافی تھے۔ ان کی سب سے قابل ذکر تحقیقات نے بلقان میں نسلی جنگوں کا احاطہ کیا ، جہاں انہوں نے دریافت کیا کہ کوسوو میں ہونے والی مبینہ نسل کشی کے الزامات کو بلاجواز قرار دیا گیا ہے۔
ڈینیل پرل نے وال اسٹریٹ جرنل کا جنوب مشرقی ایشیاء کابیورو چیف بننے کے بعد ممبئی میں سکونت اختیار کی۔ انہوں نے کراچی کا سفر کیا جسے انہوں نے 2001 میں امریکا میں نائن الیون حملوں کے بعد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے بارے میں رپورٹنگ کے ایک اڈے کے طور پر استعمال کیا تھا۔ 2002 میں کراچی میں انہیں اغوا کیا گیا اور بعد میں قتل کردیا گیا تھا۔

ڈیفنی کیروانا
ڈیفنی کیرواناگیلیزیا مالٹائی صحافی ، مصنف اور انسداد بدعنوانی کی کارکن تھیں ، جس نے مالٹا میں سیاسی چالوں کو بے نقاب کیا۔ ڈیفنی کیروانا  قومی اور بین الاقوامی ساکھ بحال کرنے کے حوالے سے سیاست دانوں کی بدانتظامی کی باقاعدہ رپورٹنگ پر مامور تھیں۔
ڈیفنی کیروانانے دھمکیوں اور بدعنوانی اور دیگر مقدموں کے باوجود کئی دہائیوں تک مضامین شائع کرنا جاری رکھا۔

2016 اور 2017 میں انہوں نے متنازعہ مالٹائی سیاستدانوں اور پاناما پیپرز اسکینڈل سے متعلق حساس معلومات افشاء کیں۔ 16 اکتوبر 2017 کو ڈیفنی کیروانااس وقت اپنے گھر کے قریب ہی دم توڑ گئیں جب ان کی گاڑی کے اندر دھماکہ ہوا۔

گیلرمو کینو
گیلرمو کینو نے بلفائٹنگ ، کھیلوں ، ثقافتی اور سیاسی حصوں میں کام کیا ۔ انہوں نے 1952 سے ال اسپکٹیڈرکے ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

انہوں نے ملک کی سیاست میں منشیات فروشوں کے اثر و رسوخ کی مذمت کرنے کے لئے ال اسپکٹیڈراخبار میں ایک مہم چلائی۔ تاہم ان کو اخبارکے دفتر کے سامنے کولمبیا کے منشیات مافیا سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور قاتلوں نے قتل کیا تھا۔ اسی عمارت کو تین سال بعد بم حملے میں تباہ کردیا گیا تھا۔

Related Posts