اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا نجی ٹیلی وژن کو انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ سانحہ موٹروے نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بچوں اور خواتین سے زیادتی کرنیوالوں کو سرعام پھانسی پر لٹکانا یا ایسے لوگوں کی کیسٹریشن ہونی چاہیے،ان کا آپریشن کرکے انھیں ناکارہ کر دینا چاہیے تاکہ آئندہ ایسی حرکت نہ کر سکیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ موٹروے واقعہ کے بعد سب نے کہا کہ اب ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔ زیادتی کرنیوالے جیل سے باہر آ کر پھر وہی کام کرتے ہیں۔ہر کوئی سوچتا ہے کہ اس خاتون کی جگہ ہماری بہن اور بیٹی بھی ہو سکتی تھی۔ اس کی سب کو اتنی تکلیف ہوئی۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اقتدار سنبھالا تو آئی جیز کی بریفنگ سے حیران ہوا۔ بہت سے زیادتی کیسز تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ معاشرے میں فحاشی بڑھے تو سیکس کرائم بڑھتا ہے، جس سے خاندانی نظام تباہ ہو جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسے روکنے کے لئے اقدامات کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ خواتین اور بچوں سے زیادتی کے مرتکب مجرموں کو سرعام پھانسی یا ان کی کیسٹریشن ہونی چاہیے۔ لیکن ہم نے اس معاملے پر ڈسکس کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ یہ اقدام اٹھانے سے ہمیں تجارتی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کوروناکے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اپوزیشن اور پیسے والے دباؤ ڈال رہے تھے کہ ووہان، اٹلی اور یورپ جیسا لاک ڈاؤن ہو لیکن میرا موقف تھا کہ ہمارا معاشرہ ان سے بالکل مختلف ہے۔ جہاں اتنی غربت ہو وہاں لاک ڈاؤن کیسے کر سکتے ہیں؟ ہم نے بروقت فیصلہ کیا کہ ہم لاک ڈاؤن نہیں کرینگے۔
دوران انٹرویو وزیراعظم نے کہا کہ دوسری جانب بھارت نے وہ غلطی کی جو سیاسی کلاس مجھے کرنے کا کہہ رہی تھی۔ نریندر مودی نے پریشر میں آکر 4 گھنٹے کے نوٹس پر لاک ڈاؤن کر دیا۔ اب دنیا کورونا کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنائے گئے اقدامات پر ہماری تعریف کر رہی ہے۔ ہم کورونا کی صورتحال سے نکل گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ سمارٹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہوسکا ہے۔ ہندوستان کے ہم سے زیادہ بہتر حالات تھے، اگر میں ان کے پریشر میں آ جاتا تو ہمارا بیڑہ غرق ہو جانا تھا۔ آج وہاں کی معیشت سب سے زیادہ متاثر ہے۔ بھارت نے لاک ڈاؤن بھی کیا اور کورونا بھی پھیل گیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پنجاب کی حکومت بڑی مشکل ہے کیونکہ یہاں کی پولیس اور بیوروکریسی سیاسی ہو چکی ہے۔ سابق حکمران 30 سال تک اقتدار میں رہے۔ ان کے اپنے خاص لوگ عہدوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم پہلی دفعہ اقتدار میں آئے تھے، ہمارے لئے درست ٹیم ڈھونڈنا مشکل تھا۔ حمزہ شہباز نے چن چن کر اپنے تھانیدار لگوائے ہوئے تھے۔
عمر شیخ کی تعیناتی اور ان پر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سی سی پی او لاہور کی تبدیلی پر بہت شور مچایا گیا۔ ان کو لانے کی اس لئے ضروت پڑی کیونکہ قبضہ گروپوں نے لوگوں کی زمینوں پر قبضے کئے ہوئے ہیں۔ پولیس قبضہ گروپوں سے ملی ہوئی ہے۔