بوس و کنار اور بے حیائی! پاکستانی ڈراموں میں فحاشی کا سیلاب، سوشل میڈیا صارفین برہم

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Public Outcry Over the Decline of Pakistani TV Dramas
ONLINE

پاکستانی ڈرامے، جو کبھی خاندانی اقدار، اخلاقیات اور تہذیبی روایات کے امین سمجھے جاتے تھے، اب تیزی سے ایسی پستی کی طرف جا رہے ہیں جہاں فحاشی، بے حیائی اور سطحی رومانس ان کا بنیادی مواد بن چکا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہزاروں صارفین اس تبدیلی پر سراپا احتجاج نظر آتے ہیں، جو ان ڈراموں میں دکھائے جانے والے مناظر، مکالمات اور موضوعات کو پاکستانی معاشرے، اسلامی روایات اور خاندانی نظام کے لیے خطرناک قرار دے رہے ہیں۔

ایک صارف نے لکھا کہ پاکستانی ڈرامے کبھی تہذیب، خاندانی اقدار اور اخلاقی سبق کے علمبردار ہوا کرتے تھے۔ آج وہی ڈرامے محبت کے نام پر فحاشی اور بے حیائی کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ ہمارا کلچر نہیں، بلکہ ہماری شناخت کے خلاف ہے۔

درحقیقت حالیہ دنوں میں ایک ڈرامہ سیریز کے سین اور مکالمات سوشل میڈیا پر گردش کرتے رہے، جن میں اداکار اور اداکارہ کے درمیان مباشرت کے حوالے سے انتہائی نازیبا اور قابل اعتراض گفتگو شامل تھی۔

ان مکالمات میں اداکارہ یہ کہتی سنائی دیتی ہے:سیکس کرتے وقت پاگل کر دیتے ہو مجھے، تھوڑی دیر اور کرتے تو جان نکل جاتی میری۔ مجھے خوش کرنے کے لیے یہ روکے رکھتے ہو، جن ہو پورے جن، تکلیف ہوتی ہے اگر مجھے کچھ ہو گیا۔

اداکار کا مکالمہ تھانہ کر، یہ تو میرا پیار ہے، تکلیف نہیں دینی آپکو، مزا دینا ہے۔

ایک اور صارف نے اس پر شدید ردعمل دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا پیمرا بھنگ پی کر سو رہا ہے اور حکومت ستو پی کر؟ خدارا! اس پر آواز اٹھائیں۔ یہ پہلا قدم ہے اس فحاشی شوبز کا، اگر روکا نہ گیا تو آگے بہت کچھ یہ پروڈیوس کر دیں گے۔ انہوں نے ہماری نسل برباد کرنے کی ٹھان لی ہے۔

یہ تنقید محض کسی خاص ڈرامے تک محدود نہیں بلکہ مجموعی طور پر پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری پر عوامی عدم اعتماد کو ظاہر کرتی ہے۔

ایک اور صارف لکھتے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، جہاں ایسے ڈرامے بنا کر مختلف چینلز پر دکھا کر اسلامی روایات اور گھریلو زندگی کو جان بوجھ کر تباہ کیا جا رہا ہے۔ اس بے حیائی کو کون روکے گا؟ پیمرا قوانین کیا کہتے ہیں؟ کیا وفاق کو فوری طور پر سینسر بورڈ بنانا نہیں چاہیے؟

پاکستان میں اس وقت فلموں کے لیے تو سینسر بورڈ موجود ہے، مگر ڈراموں کے لیے کوئی مستقل اور فعال سینسرنگ نظام نہیں۔ بیشتر صارفین اس خلا کو پُر کرنے کی فوری ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔

ان کے مطابق ڈراموں میں طلاق، غیر شرعی رشتے، عاشق و معشوقی، اور سسر بہو جیسے نامناسب تعلقات کو جس طرح عام کر کے دکھایا جا رہا ہے، وہ معاشرتی تباہی کی ایک واضح علامت ہے۔

ایک صارف نے غصے میں لکھا کہ پاکستانی ڈراموں میں سسر بہو کے ناجائز رشتے، طلاق، عاشقی و معشوقی جیسے موضوعات کو عام کر کے بے حیائی کو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ آج کے ڈرامے فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کے قابل نہیں رہے۔ یہ خاندانی نظام اور معاشرتی اقدار پر حملہ ہے۔

کچھ ناظرین نے پاکستانی ڈراموں کے ماضی کو یاد کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستانی ڈرامے کبھی اخلاقیات، خاندانی اقدار اور سنجیدہ کہانیوں کے لیے پہچانے جاتے تھے۔ آج صرف رومانوی سین، بے حیائی اور سطحی مواد رہ گیا ہے۔

پاکستانی ڈرامے، جو کبھی اعلیٰ معیار اور خاندانی اقدار کی عکاسی کرتے تھے، اب تیزی سے بے حیائی، فحاشی، اور بے آداب معاشرتی رویوں کا گہوارہ بن چکے ہیں۔ ان ڈراموں میں دکھائی جانے والی کہانیاں، کردار اور مناظر نہ صرف ہماری اسلامی اور ثقافتی اقدار سے متصادم ہیں بلکہ نوجوان نسل کو ذہنی، جذباتی اور اخلاقی الجھنوں کا شکار بنا رہے ہیں۔

عوامی سطح پر سب سے زیادہ سوالات پیمرا (پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی) کے کردار پر اٹھائے جا رہے ہیں۔ بیشتر صارفین یہ سمجھتے ہیں کہ پیمرا صرف نیوز چینلز پر پابندیاں لگانے تک محدود ہو چکا ہے، جبکہ ڈراموں اور سیریلز میں بڑھتی ہوئی فحاشی پر نہ کوئی نوٹس لیا جا رہا ہے، نہ جرمانہ اور نہ ہی ضابطہ اخلاق کی کوئی پابندی کروائی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر اس وقت جو طوفان اٹھا ہے، وہ صرف غصے کا اظہار نہیں بلکہ ایک اجتماعی مطالبہ ہے کہ پاکستانی میڈیا کو اسلامی، خاندانی اور اخلاقی اصولوں کا پابند بنایا جائے۔ اگر اس مطالبے کو نظرانداز کیا گیا، تو عوامی بے چینی، میڈیا کے خلاف بائیکاٹ، اور نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی بے سمتی ایک بڑا قومی مسئلہ بن سکتی ہے۔


 

Related Posts