“غریب کا کوئی پوچھنے والا نہیں” کوہستان کے دلخراش واقعے پر عوام کا شدید ردعمل

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ضلع لوئر کوہستان کے علاقے سناگئی دوبیر میں 5 دوست تین گھنٹے تک پھنسے رہنے کے بعد سیلابی ریلے میں بہہ گئے، دلخراش واقعے کی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر عوم میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔

علاقہ مکینوں کے مطابق پانچوں بد قسمت دوستوں نے اچانک سیلابی ریلے کی زد میں آنے کے بعد ندی میں موجود ایک بڑی چٹان پر پناہ لی اور تین گھنٹے تک حسرت اور بے بسی سے امداد کے منتطر رہے، مگر آخر کار سیلاب کی تند و تیز موجوں کی آغوش میں چلے گئے۔

پانچوں دوست حالات کے رحم و کرم پر امداد کا انتظار کرتے رہے مگر کوئی سرکاری ادارہ یا ریسکیو ٹیم ان کی مدد کو نہ پہنچی، جبکہ ندی کے کنارے پر لوگوں کی بڑی تعداد بے بسی سے ان پانچ جیتے جاگتے دوستوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ڈوبتے دیکھتی رہ گئی۔

اس اندوہناک واقعے کی تفصیلات اور ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر ہر طرف شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔  لوگوں کا کہنا تھا کہ اگر انتظامیہ چاہتی تو ایک گھنٹے میں پشاور یا گلگت سے ہیلی کاپٹر پہنچ سکتا تھا مگر کوئی بھی سیلاب میں پھنسے ان پانچ انسانوں کو بچانے کیلئے نہ آیا۔

ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سرکاری سطح پر کوئی مدد نہ پہنچنے پر مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت رسیوں کے ذریعے انہیں نکالنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں، مگر سیلاب کے منہ زور ریلے کے سامنے یہ کوشش لا حاصل ثابت ہوتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پانچ جیتے جاگتے انسان طاقتور سیلاب کی خطرناک موجوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔

علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ 5 میں سے صرف ایک نوجوان کو ریسکیو کیا گیا جبکہ ابھی تک صرف ایک ہی لاش مل سکی ہے۔

واقعے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں اور شہریوں نے حکومت کی جانب سے نوجوانوں کو ریسکیو نہ کرنے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔

مختلف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے اپنے اپنے بلاگز اور سوشل اکاؤنٹس پر اس دلخراش واقعے پر انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ماضی میں ایسے ہی ایک موقع پر چترال کے علاقے گولین گول میں پھنسنے والی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی بہن علیمہ خان کو ریسکیو کرنے کیلئے پوری سرکاری مشینری کے استعمال کا حوالہ دیا ہے۔

مختلف معروف و مقبول بلاگرز اور صارفین نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئےکہا ہے کہ اگر اس واقعے میں بھی کسی اعلیٰ شخصیت کا کوئی رشتہ دار پھنس جاتا تو ضرور پوری ریاستی مشینری کو ان کو بچانے کیلئے استعمال میں لایا جاتا۔

سوشل میڈیا پر اس واقعے پر نوحہ لکھتے ہوئے معروف صحافی، مصنف اور بلاگر فیض اللہ خان کا کہنا ہے کہ ایک لمحے کو سوچو کہ ان پانچ بھائیوں میں سے ایک عمران خان کا بچہ ہوتا، دوسرا نواز شریف کا بیٹا ہوتا، تیسرا عطاء بندیال کا لخت جگر، چوتھا جنرل باجوہ کا نور چشم اور پانچواں زرداری صاحب کا صاحب زادہ، تو کیا تب بھی حکومت یا مدد کی پکار پہ ردعمل وہی ہوتا؟

کوہستان سے تعلق رکھنے والے معروف بلاگر، ادیب اور پولیس افسر محمد گل نے لکھا ہے کہ ہمیں ان چاروں جوانوں کی اس اندوہناک موت پر نہیں، ہمیں مل بیٹھ کر ریاست اور نظامِ حکومت، حکمران اور ان میں منقسم رعایا کی بے حسی اور ناکامی پر بین کرنا چاہئے۔ مل کر سر پیٹنا چاہئے، اور دردناک ایسے انجام کی اپنی اپنی باری کا انتظار کرنا چاہئے۔

معروف بلاگر اور فیچر رائٹر ضیاء چترالی لکھتے ہیں: ‏کوہستان میں 5 بھائی سیلابی ریلے کے بیچوں بیچ پورے5گھنٹے زندگی اور موت کے درمیان اس امید سے جھولتے رہے کہ شاید کوئی بچانے آئے گا۔ حکومت ہیلی کاپٹر بھیج دے گی۔ سوشل میڈیا پر لوگ دہائیاں دیتے رہے۔ مگر اس کے باوجود صوبائی حکومت کے فرعونوں کے کان میں جوں تک نہ رینگی۔ ایک ہیلی کاپٹر نہ بھیجا جاسکا۔ جس میں بمشکل ایک گھنٹہ ہی لگتا۔

Related Posts