امریکی صدر غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرکے اس کی زمین پر قبضے کے منصوبے پر مُصر ہے۔ ٹرمپ کی وجہ سے اس خبر کا عالمی میڈیا میں بھی چرچا ہے۔ لیکن دوسری جانب مغربی کنارے کو فلسطینیوں سے خالی کرکے اس پر مکمل قبضہ کرنے کا صہیونی منصوبہ زور وشور سے جاری ہے، مگر پوری دنیا خاموش ہے۔
مغربی کنارے میں تقریبا 8 دہائیوں کے بعد سب سے بڑی جبری اجتماعی نقل مکانی کی کارروائیاں جاری ہیں اور تادم تحریر 40 ہزار سے زاید فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا جاچکا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق 1948ء کے نکبہ اور 1967ء کے نکسہ کی طرح ہزاروں فلسطینیوں نے اسرائیلی فوج کے “آئرن ڈوم” آپریشن کے باعث جبراً اپنے گھروں کو چھوڑ دیا ہے اور جنین، طولکرم اور طوباس کے پناہ گزین کیمپوں سے نقل مکانی جاری ہے۔
یہ سب مغربی کنارے میں پچھلے 5 دہائیوں میں سب سے بڑی نقل مکانی کی کارروائی ہے۔ اس مرتبہ نقل مکانی کو انتہائی خطرناک، زیادہ پرتشدد اور ظالمانہ قرار دیا گیا ہے، جو پہلے کی کئی دیگر نقل مکانی کی کارروائیوں سے زیادہ شدت اختیار کر چکی ہے، جنہوں نے شمالی مغربی کنارے کے کیمپوں (جنین، طولکرم اور الفارعة) کو 7 اکتوبر 2023 میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد نشانہ بنایا تھا۔
اس دوران اسرائیلی فوج نے بدترین دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینی شہریوں کو ان کے گھروں میں گھس کر باہر نکالا۔ پھر گھروں کو مسمار کر کے ان پر تشدد کیا۔ فلسطینی اپنے گھروں سے نکل کر مختلف مقامات پر پناہ گزین ہوئے، جہاں کچھ نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے گھروں میں پناہ لی، جبکہ دیگر نے مساجد، کلبوں اور اسکولوں جیسے پناہ گاہوں کا رخ کیا۔ کچھ لوگ پہاڑوں اور میدانوں کی طرف بھاگ گئے، جہاں انہوں نے خیمے لگائے، جنہیں غذائی اشیاء کی کمی، ضروریات کے فقدان اور مختلف نوعیت کی مشکلات کا سامنا ہے۔
طولکرم کیمپ کے تقریباً 90 فیصد رہائشی نقل مکانی کر چکے ہیں، وہاں ایسے افراد کے لیے 6 پناہ گاہیں قائم کی گئی ہیں جنہیں کہیں اور پناہ نہیں مل سکی تھی۔ مساجد، اسکول، کلب اور عوامی صحت کے مراکز کو پناہ گزینوں کے استقبال کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ “آئرن ڈوم” آپریشن 21 جنوری 2024 سے جاری ہے، اس دوران کیمپوں میں مقامی حکام کے تخمینوں کے مطابق 44 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، درجنوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور طولکرم کی طرح جنین کے بھی 90 فیصد سے زیادہ رہائشیوں کو بے گھر کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ الفارعة اور نور شمس کیمپوں میں بھی درجنوں خاندان اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے ہیں، جہاں سیکڑوں گھروں کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج کی یلغار کے ساتھ مکمل محاصرہ بھی جاری ہے، جس کے نتیجے میں خوراک، پانی، بجلی اور مواصلات کی فراہمی کو روک دیا گیا ہے اور بنیادی ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے، صہیونی فوجی گھروں میں داخل ہو کر شہریوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر رہے ہیں۔
پچھلے ہفتے کیمپ میں سب سے بڑی جبری اجتماعی نقل مکانی ہوئی، جب اسرائیلی فوج نے درجنوں خاندانوں کو اسلحے کے ذریعے اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور کیا اور ان گھروں کو فوجی چھاؤنیاں اور تفتیش کے مراکز میں تبدیل کر دیا۔
فلسطینی پناہ گزینوں کی امدادی تنظیم (اُنروا) نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج نے شمالی مغربی کنارے سے تقریباً 40 ہزار سے زاید فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا ہے۔