مسجد اقصیٰ کو نقصان پہنچا کر الزام ایران پر ڈالنے کی تیاری؟

مقبول خبریں

کالمز

zia-1-1-1
اسرائیل سے تعلقات کے بے شمار فوائد؟
zia-1-1
غزہ: بھارت کے ہاتھوں فلسطینیوں کا قتل عام؟
zia-1
پانچ صہیونی انتہاپسندوں میں پھنسا ٹرمپ (دوسرا حصہ)

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حالیہ جنگ کے دوران کچھ ایسے اشارے اور بیانات سامنے آئے ہیں جو اس خدشے کو تقویت دیتے ہیں کہ اسرائیل کسی موقع پر مسجد اقصیٰ کو نقصان پہنچا کر اس کا الزام ایران پر ڈال سکتا ہے۔

یہ ایک نہایت خطرناک مگر چالاکی سے تیار کی گئی حکمتِ عملی ہو سکتی ہے، جس کا مقصد تین پہلوؤں پر اثر انداز ہونا ہوگا:
1. مسجد الاقصیٰ کی حاکمیت ختم کرنا:
اسرائیل کے اندر موجود انتہا پسند مذہبی حلقے (خصوصاً “الصہیونیة الدینیة” اور “الحریدیون”) طویل عرصے سے الاقصیٰ کو یہودی عبادت کے مرکز میں بدلنے کے خواہاں ہیں۔ اگر کسی “حادثے” میں مسجد کو نقصان پہنچے اور اسرائیل اس کا ذمہ دار ایران کو قرار دے دے تو عالمی مسلم ردعمل ایران کی طرف منتقل ہو جائے گا۔ اسرائیل اقصیٰ سے سیاسی طور پر بری الذمہ بن جائے گا اور “نئے انتظامات” (جیسے مشترکہ کنٹرول یا تقسیمِ اوقات) کے بہانے یہودیوں کو مسجد میں مستقل داخلے کا حق مل جائے گا۔
2. ایران کو عالمی سطح پر بدنام کرنا:
اگر مسجد الاقصیٰ کو نقصان پہنچتا ہے اور اسرائیل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ایرانی میزائل یا ڈرون کی وجہ سے ہوا تو یہ عالمی رائے عامہ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ اسلامی دنیا میں بھی ایران کے خلاف غصہ پیدا ہو گا۔ امریکہ اور یورپی ممالک کو ایران کے خلاف سخت اقدامات کا بہانہ مل جائے گا۔
3. اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کو جواز دینا:
ایسے کسی واقعے کے بعد اسرائیل اپنے عوام کو بتائے گا کہ “ایران نے ہمارے مقدس مقام کو نشانہ بنایا”۔ اس سے مزید فوجی کارروائی کے لیے داخلی سیاسی حمایت حاصل ہوگی۔ وہ بین الاقوامی سطح پر بھی خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔
خدشہ کہاں سے پیدا ہوا؟
حال ہی میں نیویارک میں مقیم یہودی حاخام یوسِف مزراہی نے ایک ویڈیو میں کہا “اگر میرے ہاتھ میں اختیار ہوتا تو میں مسجد الاقصیٰ پر ایک ایرانی میزائل گرا دیتا اور کہتا کہ یہ غلطی سے ہوا۔” یہ بات بظاہر ایک انفرادی رائے لگتی ہے، مگر یہ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ایسی سوچ اسرائیلی شدت پسندوں میں موجود ہے۔ موقع کا انتظار کیا جا رہا ہے کہ کب دنیا کی توجہ ہٹے اور مسجد کو نقصان پہنچا کر سارا الزام ایران پر ڈال دیا جائے۔
غیر معمولی چوکسی کی ضرورت
اس صورتحال میں مسلمانوں خاص کر اہلِ فلسطین کو ہر لمحے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ مسلمان ممالک کو اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ اگر اسرائیل نے واقعی ایسی سازش کی، تو اس کا مطلب امتِ مسلمہ کی اجتماعی تذلیل ہوگا۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگی حالات میں مسجد الاقصیٰ کی سلامتی ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ ہمیں ایسے کسی “جھوٹے پرچم” (False Flag) آپریشن کا امکان نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، جہاں حقیقی حملہ اسرائیل کرے اور الزام ایران پر ڈالے۔
الجزیرہ نے اس ممکنہ خطرے پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ جس کے مطابق یقیناً یہ ایک اہم اور حساس نکتہ ہے جسے اسرائیلی ریاست کی پالیسی سازی اور اس کی حکمت عملی میں باریک بینی سے محسوس کیا جا سکتا ہے، یعنی ہر فائل، ہر محاذ اور ہر شعبے میں تخصیص کا اصول، تاکہ ایک میدان میں مصروفیت دوسرے محاذ پر غفلت یا کمزوری کا باعث نہ بنے۔ یہی چیز ہم موجودہ صورتحال میں واضح طور پر دیکھ رہے ہیں، جہاں ایک طرف ایران اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست عسکری تصادم جاری ہے اور دوسری طرف غزہ میں اسرائیل کی قتل و غارت گری کی مہم بدستور شدت کے ساتھ جاری ہے۔ اس شدید دباؤ کے باوجود اسرائیل نے القدس (یروشلم) میں نہایت خاموشی سے ایک خطرناک اور دور رس فیصلہ کیا، یعنی المسجد الاقصى المبارک اور کلیسائے قیامت (Church of the Holy Sepulchre) کو عبادت گزاروں کے لیے غیر معینہ مدت تک بند کر دیا۔ یہ فیصلہ “اجتماعات کو روکنے” کے سادہ سے بہانے کے ساتھ پیش کیا گیا، لیکن درحقیقت اس کا پس منظر اور پیغام کہیں زیادہ سنگین اور سیاسی نوعیت کا ہے۔
یہ فیصلہ کیوں اہم ہے؟
1. ظاہری دعویٰ اور اصل حقیقت میں فرق: اسرائیل نے یہ قدم سیکورٹی خدشات کے نام پر اٹھایا، لیکن سیکورٹی کے بہانے دراصل اسرائیل نے اپنی سیاسی خودمختاری کا اعلان القدس کے مقدس ترین مذہبی مقامات پر مسلط کر دیا ہے۔
2. سیاسی پیغام: اسرائیل نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ مسجد الاقصى اور کلیسائے قیامت اسرائیلی حاکمیت کے تحت ہیں، بالکل ویسے جیسے تل ابیب یا حیفا۔ یعنی وہ ان مقدس مقامات کو کسی بین الاقوامی معاہدے یا مذہبی حساسیت کے تحت نہیں بلکہ ایک “داخلی علاقہ” سمجھ کر کنٹرول کر رہا ہے۔
3. مغربی کنارہ (West Bank) سے فرق: اگر واقعی سیکورٹی خدشہ تھا، تو مغربی کنارے کے شہروں جیسے رام اللہ، نابلس یا الخلیل کی مساجد کو بھی بند کیا جاتا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا، کیونکہ وہ علاقے اب بھی باضابطہ طور پر مکمل اسرائیلی “سیاسی خودمختاری” کے دائرے میں نہیں آتے، بلکہ ان کا انتظام بین الاقوامی معاہدات (جیسے اوسلو) کے تحت کچھ درجہ بندیوں (A، B، C) میں بٹا ہوا ہے۔
4. القدس پر قبضے کی عملی پیش رفت: اسرائیل اب القدس (یروشلم) کے پرانے شہر کو جو اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قانون کے مطابق اب بھی ایک مقبوضہ علاقہ ہے، اپنی “غیر متنازعہ” اور “مکمل خودمختار” دارالحکومت سمجھ کر پالیسی نافذ کر رہا ہے۔
الاقصیٰ: سیاسی دعوے کا مرکز:
اسرائیل اب الاقصیٰ کو ایک ایسا مقام سمجھتا ہے جس پر اس کی مکمل مذہبی اور سیاسی حاکمیت ہونی چاہیے۔ اردن کے زیر انتظام اسلامی اوقاف، جو اقصیٰ کی تاریخی نگرانی کا حامل ہے، عملاً نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہ نہ صرف بین الاقوامی معاہدات کی خلاف ورزی ہے بلکہ عالم اسلام کی اجتماعی غیرت کو بھی چیلنج ہے۔
دینی رسومات اور مستقبل کی منصوبہ بندی:
نتن یاہو کی موجودہ مذہبی صہیونی حکومت المسجد الاقصیٰ کو ایک یہودی عبادت گاہ میں بدلنے کے منصوبے پر خاموشی سے نہیں بلکہ کھلے عام عمل کر رہی ہے۔ جیسے الاقصیٰ کے اندر یہودی مذہبی رسومات کی کھلم کھلا ادائیگی، مستقبل قریب میں ایک مستقل یہودی مرکز (Synagogue) قائم کرنے کی تیاریاں، بعض رپورٹس کے مطابق، ایک بند عبادت گاہ یا مخصوص “یہودی زون” مختص کرنے کی منصوبہ بندی اور انتہاپسند وزیر ایتمار بن گویر کے متعدد بیانات جو انہی عزائم کی تصدیق کرتے ہیں۔
نتن یاہو اور مذہبی صہیونی تحریک کا گٹھ جوڑ:
چند ہفتے قبل، ایران پر حملے سے پہلے، نتن یاہو نے مذہبی صہیونی تحریک سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ معبد کی تعمیر کا عمل شروع ہو چکا ہے اور عوام کو جلد اس کا مشاہدہ ہوگا۔ اس بیان نے اسے اس تحریک سے غیر مشروط حمایت دلوائی، جو ماضی میں کئی بار حکومتوں کو گرا چکی ہے۔
خاموشی کا معنی خیز رویہ:
دلچسپ بات یہ ہے کہ انہی گروہوں نے ماضی میں معمولی تاخیر پر بھی شدید احتجاج کیا تھا، مگر اس بار جب اقصیٰ مسلمانوں کے لیے بند کیا گیا اور یہودیوں کے دھاوے بھی وقتی طور پر روکے گئے تو کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا۔ کیوں؟ کیونکہ ان کا اولین مقصد “برابری” حاصل کرنا ہے، جیسے مسجد ابراہیمی میں ہوا، جہاں مسلمانوں اور یہودیوں کے لیے الگ اوقات اور حصے مختص کر دیئے گئے۔ وہی ماڈل اب الاقصیٰ میں نافذ کرنے کی کوشش ہے، جو بعد میں مکمل یہودی اجارہ داری میں بدل سکتا ہے۔
حائط البراق (دیوار گریہ) اور دوہرا معیار:
حیرت انگیز تضاد یہاں سامنے آتا ہے۔ جمعہ کے روز مسلمانوں کو الاقصیٰ سے زبردستی نکالا گیا۔ مگر یہودیوں کو حائط البراق پر بلا روک ٹوک عبادات جاری رکھنے دیا گیا۔ نہ کوئی پولیس کی مداخلت، نہ سیکورٹی کا بہانہ۔ اسی دن (16 جون) کو مذہبی یہودیوں کی قیادت نے “فوج کی فتح کے لیے اجتماعی دعاؤں” کا اعلان کیا اور ہزاروں یہودی عبادت گزار دیوارِ گریہ پر جمع ہوئے۔ مگر اسرائیلی وزارتِ داخلہ نے کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ کیا ان کے لیے سیکورٹی کا ایشو نہیں تھا؟
سیاسی پس منظر:
یہ رویہ دراصل دو سیاسی مفادات کو پورا کرتا ہے۔ ایک نتن یاہو کا مذہبی ووٹرز سے اتحاد مضبوط کرنا، خصوصاً “حریدی” طبقہ جو عبادات کی مسلسل ادائیگی کو اپنی مذہبی ذمہ داری سمجھتا ہے اور اسی کی بنیاد پر سیاسی حمایت فراہم کرتا ہے۔ دوسرا القدس کو مکمل یہودی دارالحکومت کی شکل دینا، جہاں مسلمان صرف ایک محدود اقلیت کے طور پر باقی رہیں، نہ کہ بطور مسجد الاقصیٰ کے اصل وارث۔ مسجد الاقصیٰ کی بندش، یہودی رسومات کی کھلی اجازت اور حائط البراق پر عبادات کی آزادی، یہ سب ایک مشترکہ نقشے کا حصہ ہیں، جس کا مقصد القدس کو مکمل طور پر یہودی مذہبی مرکز بنانا ہے۔ یقیناً اسرائیلی حکومت کی حالیہ پالیسیوں کا تجزیہ کرتے وقت ہمیں صرف واقعات پر نہیں بلکہ ان کے پیچھے کارفرما نیتوں اور عزائم پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ جیسا کہ کورونا وبا کے دوران حریدی (قدامت پسند مذہبی) یہودیوں کا رویہ واضح تھا کہ وہ کسی بھی حال میں اپنی مذہبی رسومات ترک کرنے پر تیار نہیں تھے، چاہے صحت کا بحران ہو یا عالمی وبا۔ اسی پس منظر میں جب آج مسجد الاقصیٰ کو بند کر دیا گیا اور حائط البراق پر ہزاروں یہودی کھلے عام جمع ہوئے، تو سوال پیدا ہوتا ہے: اگر مسئلہ سیکورٹی ہے، تو کیا مسجد اقصیٰ کی حفاظت زیادہ مشکل ہے؟ یا حقیقت یہ ہے کہ نتن یاہو کو اپنی حکومت بچانے کے لیے ان مذہبی طبقات کو خوش رکھنا ہے جنہوں نے حال ہی میں قانونِ تحلیلِ کنیسٹ پر ووٹنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا؟
دیوار گریہ اوپن، اقصیٰ بند؟ یہ کیسا توازن؟
مسجد اقصیٰ کو جمعے کے دن مکمل بند کر دیا گیا۔ حائط البراق پر ہزاروں یہودیوں کو اجتماعات کی اجازت ملی۔ کنيسة القيامة بھی بند کیا گیا، مگر یہ صرف ایک ظاہری توازن پیدا کرنے کی کوشش ہے تاکہ مسلمانوں کے غصے کو کم کیا جا سکے۔ اگر واقعی خطرہ “اجتماعات” سے ہے، تو مسجد اقصیٰ اور دیوار گریہ بالکل متصل ہیں۔ اقصیٰ غیر محفوظ اور حائط محفوظ کیسے ہو سکتا ہے؟
عملی اقدامات اور مکمل محاصرہ:
اس بار صرف نمازیوں کو نہیں روکا گیا بلکہ صرف حراس المسجد (گارڈز) کو داخلے کی اجازت دی گئی، جبکہ اوقافِ اسلامی کے دیگر ملازمین کو بھی مسجد میں جانے سے روک دیا گیا۔ جو ملازمین مسجد کے اطراف میں کام کرتے ہیں، انہیں بھی اپنے دفاتر سے مسجد میں داخلے سے روکا گیا۔ حتیٰ کہ یہ رویہ بھی کورونا دور سے زیادہ سخت ہے، جب تمام اوقاف ملازمین کو مسجد میں داخلے کی اجازت تھی۔ یہ اقدام مسجد اقصیٰ کو مکمل طور پر مسلمانوں سے کاٹ دینے کے مترادف ایک ایسا محاصرہ ہے جو ہمیں 2017ء کی باب الاسباط کی تحریک کی یاد دلاتا ہے، جب اسرائیل نے پہلی بار مسجد مکمل بند کر کے داخلی راستوں پر الیکٹرانک دروازے لگانے کی کوشش کی تھی۔
اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے؟
یہ سوال انتہائی اہم ہے، جب جنگ کا موجودہ مرحلہ ختم ہوگا اور مسجد اقصیٰ کی بندش ختم کی جائے گی، تو ہم کن “نئے حقائق” کا مشاہدہ کریں گے؟ کیا مسجد کا کوئی حصہ یہودیوں کے لیے مختص کیا جا چکا ہوگا؟ کیا داخلی راستے تبدیل ہو چکے ہوں گے؟ کیا نئی پابندیاں نافذ ہوں گی جو مسلمانوں کو محدود کر دیں گی؟
سنگین انتباہ:
یہ خطرات مزید سنگین اس وقت بنے، جب نیویارک میں مقیم حریدی حاخام یوسف مزراہی نے ایک ویڈیو میں مسجد اقصیٰ پر میزائل مارنے کی تجویز دی۔ اس نے شیطانی منصوبہ پیش کیا: “میں چاہتا ہوں کہ مسجد پر ایک ایرانی میزائل گر جائے اور ہم دعویٰ کریں کہ یہ غلطی سے ہوا۔” یہ بیان محض “مذاق” نہیں بلکہ خطرناک سوچ کی عکاسی ہے۔ یہی سوچ ماضی میں مسجد ابراہیمی کے قتل عام (1994) جیسے واقعات میں سامنے آئی۔ ایسی ذہنیت رکھنے والے افراد اگرچہ اقلیت ہیں، مگر ان کا سیاسی اثر غیر معمولی ہے۔
اب کیا کرنا ہوگا؟
خاموشی کا مطلب پسپائی ہے اور پسپائی کا نتیجہ مسجد اقصیٰ کی شناخت کا مٹ جانا ہے، لہٰذا اہلِ القدس کو پہل کرنی ہوگی۔ عوامی تحریک، احتجاج اور اپنی موجودگی کا اظہار ہی واحد راستہ ہے جو اسرائیل کو “نئے حقائق” قائم کرنے سے باز رکھ سکتا ہے۔ جیسا کہ 2017 میں ہوا جب عوامی احتجاج نے اسرائیلی حکومت کو الیکٹرانک گیٹ ہٹانے پر مجبور کیا، ویسے ہی ایک عوامی بیداری آج بھی اقصیٰ کو بچا سکتی ہے۔

Related Posts