اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کے اجلاس کی اندرونی رپورٹ سامنے آ گئی ہے جس کی صدارت چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کی۔
رپورٹ کے مطابق اجلاس میں زیادہ تر پی پی پی اراکین نے حکومت کے رویے پر مایوسی کا اظہار کیا۔بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں ہونے والے اجلاس میں کہا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور وزیراعظم شہباز شریف پیپلز پارٹی کے ووٹوں پر کھڑے ہیں۔
اراکین نے ذکر کیا کہ حکومتی کمیٹیوں کے ساتھ مذاکرات بے نتیجہ رہے ہیں اور پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کو وعدے پورے کرنے کے لیے وقت دیا تھا۔اجلاس میں نشاندہی کی گئی کہ حکومت نے وعدوں کو پورا کرنے میں سنجیدگی نہیں دکھائی اور فیصلے و بل مشاورت کے بغیر منظور کیے جا رہے ہیں۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پیپلز پارٹی آئندہ حکومت کے کسی بھی بل کی حمایت نہیں کرے گی جب تک کہ وعدے پورے نہ کیے جائیں۔
ایک پریس ریلیز میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں ہونے والے سی ای سی اجلاس میں خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے حوالے سے کوششوں کو سراہا گیا۔
اجلاس میں وفاقی اور خیبر پختونخوا حکومتوں سے اے پی سی تجاویز پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا گیا۔ ایک قرارداد میں کرم کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امدادی سامان کے لیے راستے فوری کھولنے کا مطالبہ کیا گیا۔
قرارداد میں پنجاب اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کو متفقہ شرائط پر کرانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
سی ای سی نے متنازعہ نہروں کی تعمیر پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا جو 11 ماہ سے زیر التواء ہے۔
انقلابی شلواریں چھوڑ کر بھاگ گئے اور، سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی احتجاج پر کڑی تنقید
ایک قرارداد میں پی ڈبلیو ڈی، کراچی ڈاک لیبر بورڈ، یوٹیلیٹی اسٹورز اور دیگر اداروں کے معاملات پر فوری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔
کمیٹی نے حکومت کی زرعی پالیسیوں پر تنقید کی اور کسانوں کی امداد کے فقدان پر تشویش ظاہر کی۔ مزید برآں، سی ای سی نے بلوچستان میں سیلاب متاثرین کے لیے فوری فنڈز کا مطالبہ کیا۔
اس سے قبل پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر اہم معاملات میں مسلسل نظر انداز کرنے پر ناراضگی ظاہر کی تھی۔
پیپلز پارٹی نے پنجاب اور مرکز میں اپنے قانون سازوں کو نظر انداز کرنے کی شکایت کی ہے اور حالیہ نہری تنازعہ نے دونوں جماعتوں کے درمیان معاملات کو مزید گرما دیا ہے۔
قومی اسمبلی میں حالیہ کورم کی کمی کو مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کی جانب سے اپنی ناراضگی ظاہر کرنے کے لیے ایک جان بوجھ کر اقدام کہا جا رہا ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی پی قیادت قومی اہم معاملات پر مشاورت کی کمی پر مایوس ہے۔