ساٹھ سال کی عمر تک جب انسان پہنچتا ہے تو اس کے پاس بے تحاشا تجربہ اور مہارت ہوتی ہے مگر ہمارا قانون اور معاشرہ اسے اس جگہ پر لے جا کر بٹھاتا ہے جس سے نہ معاشرے فائدہ اٹھاتا ہے اور نہ گھر والے۔
بڑی بڑی سے تعلیم حاصل کر لیں مگر تجربے کے آگے ہار جاتے ہیں، تجربہ بہت مشکل سے اور تکلیفوں سے ملتا ہے، ہمارے یہاں ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی آپشن اس انسان کو نہیں دیاجاتا جو چاہتا ہے کہ اپنی موت سے پہلے اپنے تجربوں کی بنا پر حاصل کی ہوئی تعلیم لوگوں تک پہنچائیں، ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ بس 60 سال کا ہوگیا ہے اب نئے لوگوں کو اداروں میں چانس ملنا چاہیے مگر ہم کبھی بھی اس بات کو لے کر کسی سیاست دان کو نہیں کہتے اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک چلانے کے لیے تجربہ کار اور ذہانت کا ہونا بہت ضروری ہے، ذہانت اور تجربہ عمر کے ساتھ بڑھتا رہتا ہے۔
دنیا بھر میں تمام ادارے ریٹائرمنٹ کی عمر کی حدود رکھتے ہیں مگر سیاست میں کوئی عمر کی حد نہیں ہوتی اور نہ ہی اس میں رئٹائرمنٹ ہوتی ہے، کاش کہ ہم اس حقیقت کو سمجھیں کہ تجربہ کار لوگوں کو ہمیں استعمال کرنا چاہیے اور انہیں اداروں میں جہاں وہ ریٹائرڈ ہورہے ہیں انہیں آپشن فراہم کیا جائے کہ اگر وہ چاہیئں تو اسی ادارے کے کنسلٹس کے طور پر نوکری دی جائے، ظاہر ہے کہ وہ ریٹارڈ ہونے والا شخص اپنے ادارے کی ہر خوبی اور کمزوری کو سمجھتا ہے ور اسے بہتر بنانے کے لیے اپنے تجربے کا بھرپور استعمال کر سکتا ہے۔
ہم انہیں ادروں کے لیے باہر سے تو لوگ کنسلٹس اپوائنٹ کرتے ہیں مگر اپنے ہی ادارے کے لوگوں کو موقع نہیں دیتے، آج پاکستان کے بجٹ پر سب سے بڑا خرچہ ریٹائرڈ لوگوں کی پینشن پر آرہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ریٹائرڈ لوگوں کو استعمال نہیں کرتے اور ان کو ریٹائرمنٹ کا وظیفہ دے کر یہ سجمھتے ہیں کہ ہم نے انہیں سب کچھ دے دیا ۔ ایک ریٹائرڈ آدمی کے لیے جتنا ضروری پیشن ہے اتنا ہی ضروری ہے کہ اس کی خواہشات کے بارے میں معلوم کیا جائے بہت سے لوگوں کی خؤاشہات ہوتی ہے کہ وہ ہمشیہ جان جان شعبوں سے انہوں نے تعلق رکھا ہے انہیں شعبوں میں کام کرتے رہیں، مگر افسوس کہ ایسا بہت کم ممکن ہوتا ہے میں سمجتا ہوں کہ اگر حکومت تمام ریٹائرڈ لوگوں کو یہ موقع دے کہ اگر وہ چاہیں تو انہیں ان ادارے میں کنسلٹ کی حیثیٹ سے رکھنے کا موقع دیا جائے۔
آج جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی ترقی کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ریٹائرڈ لوگوں کی تعلیم اور تجربے سے فائڈہ اٹھارے ہیں اور ہر ادارے کے اندر ان سے مشورے لیے جاتے ہیں، بہت سے ممالک میں حکومتی سطح پر بھی تھنک ٹینک بنائے جاتے ہیں جس میں وہ ماہر ترین تجربہ کار لوگوں سے مشورہ لیکر آگے کی پلاننگ کے لیے کام کرتے ہیں اور موجودہ مشکلات کا حل نکالتے ہیں۔ پاکستان میں بزرگوں کی اب نہ عزت رہی ہے اور نہ ہی ان کے مشوروں کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ اس کی وجہ ہے ریٹائرمنٹ کے بعد معاشرہ اور ان کی فیملی ان سے کہتا ہے کہ اب آپ کی زندگی کا آخری وقت آگیا ہے اور آپ صرف آرام کریں اور اس اس بزرگ کو ایسا لگتا ہے کہ وہ آرام کرکے اپنی موت کا انتظار کررہا ہے ۔
دیکھا جائے تو یہ بزرگ ہمارے وہ نایاب خزانے ہیں جنہیں ہم اکثر دفن کر دیتے ہیں اور کبھی بھی اس خزانے سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور ان کے مرنے کے بعد افسوس کرتے ہیں کہ کاش وہ زندہ ہوتے، پاکستان میں اج بھی بہت سے ایسے بزرگ موجود ہیں جو اپنے اپنے اداروں کو چار چاند لگا سکتے ہیں مگر ہمارا معاشرہ ان سے یہی سوال کرتا ہے کہ جب آپ ریٹائرمنٹ کے پہلے کام کرتے تھے تو یہ چار چاند کیوں نہیں لگائے ان کا جواب یہی ہوتا ہیے کہ کہ ایک دن کے اندر کبھی بھی روم جیسا ملک نہیں بننا اور جب انسان کام کر رہا ہوتا ہے تو جتنا پرانا انسان ہوتا ہے اتنا وہ نقصانات اور برے حالات کا سامنا کرتے ہوئے بزرگی کی عمر تک پہنچ کر اسے پتا ہوتا ہے کہ اگر دوبارہ سے آئندہ آنے والے دونوں میں حالات خراب ہوں گے تو ان پر کیسے قابو پایا جائے جبکہ نئے کام کرنے والے کے سامنے جب برے حالات آتے ہیں تو اسے حل کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی تجربہ نہیں ہوتا ہے۔
تجربہ کا کوی نعم البدل نہیں ہے البتہ نئے لوگوں کو اور اداروں کو کامیاب پرانے لوگوں کی پالیسیز ہی کرتی ہیں اگر پرانے لوگ نے اپنے تجربوں کی کتابیں نہیں لکھی ہوتی تو شاید آج نئی آنے والی نسل اتنے کم وقت میں جدید ترقی نہیں کرتی جتنی بھی جدید ترقی ہوئی ہے وہ پرانے لوگوں کے تجربے اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کامیابی کے ساتھ لوگوں نے اداروں کو اور اپنے ملک کو ترقی کے راہ تک پہنچایا ہے۔
آج اگر ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے تجرے سے فائدہ اٹھایا ہوتا تو آج پاکستان میں نہ بجلی کا بحران ہوتا اور نہ مہنگی بجلی ہوتی اسی طرح ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے کئی لوگ ہیں ماہرین معیشت ڈاکٹر محبوب الحق صاحب بھی انہیں لوگوں کی فہرست میں ہیں جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد کوریا جیسے ملکوں کو ترقی کی راہ پر پہنچایا ۔ہم کب تک افسوس کرتے رہے گے اور اپنے بزرگوں سے فائدہ نہیں آتائیں گے تو پھر ہمارے آنے والا کل کبھی ترقی نہیں کرے گا ۔