ہر معاشرے میں، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے امن و امان برقرار رکھنے کے لئے بہت ضروری ہیں، تاہم، ہم نے اکثر ایسے واقعات دیکھے ہیں جب سیکیورٹی فورسز،جسمانی اور زبانی طور پر ہراساں کرکے ساتھ زیادہ طاقت کا استعمال کرتی ہیں جس کے باعث اکثر افراد کی موت بھی واقع ہوجاتی ہے۔
ابھی حال ہی میں، ہم نے ایک بلوچ نوجوان حیات خان کا واقعہ دیکھا جس کو اس کے والدین کے سامنے متعدد بار گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ حیات کراچی کا ذہین طالب علم تھا اور وہ اپنے آبائی شہر تربت میں رہتا تھا، فرنٹیئر کور کے سپاہی نے اسے آٹھ گولیاں مار یں۔اس دن حیات آباد کے علاقے میں فورسز پر ایک دہشت گرد حملہ ہوا تھا، اس پر دہشتگردوں سے تعلق کا الزام تھا جس کے باعث وہ اپنی زندگی سے محروم کردیا گیا۔
شدید احتجاج کے باعث نیم فوجی دستے نے اہلکار کو گرفتار کرلیا اور اب اسے پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے، ایف سی نے اس واقعے کا ذمہ دار اہلکار کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں پورے ادارے کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ صوبے میں امن اور سلامتی کی بحالی کے لئے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ بحرحال یہ بھی ضروری ہے کہ اس مقدمے کی پیروی کی جائے اور معصوم نوجوانوں کے لئے انصاف کو یقینی بنایا جائے۔
پولیس کی جانب سے بھی بربریت اور تشدد کے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس قسم کے واقعات اکثر سامنے آتے رہتے ہیں مگر ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جاتی، 2011 میں، ایک نوجوان سرفراز شاہ کراچی کے مضافاتی علاقے میں واقع عوامی پارک میں رینجرز افسر کے ہاتھوں ہلاک ہوگیا تھا۔ اس سارے معاملے کی ویڈیو بنالی گئی تھی جس کے باعث کیس کو توجہ حاصل ہوئی، مگر بعد میں ملزم کو معافی مل گئی۔
یہاں تک کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی پولیس کی جانب سے بربریت کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اکثر و بیشتر پولیس ہی کی جانب سے تشدد کے واقعات شہ سرخیوں میں رہتے ہیں، اس سال ایک سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کے قتل پر بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے جو اس طرح ہلاک ہوا جب ایک پولیس اہلکار کئی منٹ تک اس کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھے بیٹھا رہا، اس کے علاوہ ایک اور نہتے سیاہ فام نوعمر مائیکل براؤن کو گولی مار دی گئی جس کے نتیجے میں فسادات شروع ہوگئے اور پر تشدد مظاہرے کئے گئے۔
اس پر ایک اہم تحقیق کی گئی ہے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے طاقت کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی طرف اشارہ کرتی ہے۔اس کی بنیادی وجہ منظم بدعنوانی، امتیازی سلوک، کیسز کا لمبے عرصے تک چلنا ہیں۔ پولیس اہلکاروں کی جانب سے کھلے عام ہتھیاروں کو لے کر چلنا اکثر اس طرح کے حادثات کا باعث بن جاتا ہے، جبکہ ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے کہ کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار کو مجرم قرار دیا گیا ہو۔
پولیس کی جانب سے کی جانے والی بر بریت کے خلاف متعدد بار احتجاج بھی کیا گیا ہے، لیکن بدقسمتی ہے کہ بدلاؤ لانے کے لئے اس سطح پر کوئی پیش رفت نہیں کی گئی، یہ ضروری ہے کہ حکومت پولیس کے محکمے میں کی جانے والی اصلاحات پر عمل کروائے جو اس نے وعدہ کیا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔