براہِ راست،وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد مسترد، عمران خان بچ گئے

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

NA to vote on no-confidence motion against PM Imran Khan today

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کیلئے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا جس میں وزیر قانون فواد چوہدری نے ایوان کو بتایا کہ عدم اعتماد آئین کے خلاف ہے جس پر ڈپٹی اسپیکر نے قرار داد کو مسترد کردیا۔

وزیراعظم کی حکمت عملی

وزیر اعظم عمران خان آج ہونے والے قومی اسمبلی اجلاس میں شریک ہوں گے۔ آج رمضان المبارک کا پہلا روزہ ہے۔ وزیر اعظم نے قوم کو مبارکباد بھی پیش کی۔

 وزیر اعظم نے عدم اعتماد پر اراکین اور اپنی حکمتِ عملی میں واضح تبدیلی کی ہے۔ قبل ازیں چیئرمین پی ٹی آئی نے اراکین کو اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم آج اراکین بھی وزیر اعظم کے ہمراہ اسمبلی پہنچیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

تحریکِ عدم اعتماد پر قومی اسمبلی کا اجلاس، ووٹنگ آج ہوگی

وزیر اعظم کی حکمتِ عملی

تحریکِ انصاف ذرائع کے مطابق وزیر اعظم تحریکِ عدم اعتماد ناکام بنانے کیلئے پر عزم ہیں۔ اراکینِ اسمبلی کو اجلاس میں شرکت اور اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک ناکام بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے تاحال ہار ماننے کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔

قبل ازیں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میں ہارنے کے متعلق نہیں سوچتا، کیسے جیتنا ہے، سارا وقت اسی منصوبہ بندی میں گزارتا ہوں۔ اچھا کپتان ہار کی فکر نہیں کرتا۔ آج کی ساری حکمتِ عملی تیار کر لی ہے۔ بہت کم لوگوں کو اس حکمتِ عملی کے متعلق علم ہے۔

رمضان کی مبارکباد

 وزیر اعظم نے کہا کہ عوام اور پوری امتِ مسلمہ کو رمضان کی مبارکباد دیتا ہوں۔ یہ مقدس مہینہ فتنوں سے پرہیز اور بعض جائز کاموں سے باز رہنے کا درس دیتا ہے۔ اللہ نے ہمیں صحیح اور غلط کی تمیز کیلئے ضمیر کے عظیم تحفے سے نوازا ہے۔

قوم کے نام پیغام میں وزیر اعظم نے کہا کہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی اہم سمت ہی انسان کو دیگر مخلوقات سے الگ کرتی ہے۔ ریاستِ مدینہ کے ماڈل پر فلاحی ریاست کے قیام کیلئے جدوجہد کو اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ 

حزبِ اختلاف کی پوزیشن مضبوط

آج صبح 11 بج کر 30 منٹ پر شروع ہونے والے قومی اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی طرف سے پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کی جائے گی۔

ڈی چوک یا ریڈ زون میں کسی بھی سیاسی کارکن کو جانے کی اجازت نہیں۔ اراکینِ قومی اسمبلی پیدل چل کر پارلیمنٹ لاجز پہنچے ہیں۔ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین بھی اپوزیشن کے پاس پہنچ گئے۔

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ن لیگ کے صدر شہباز شریف اور چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری بھی قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کیلئے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے ہیں۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی پوزیشن مضبوط نظر آتی ہے جن کے 176 اراکین پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے ہیں۔ حکومتی اراکین کا سرپرائز دینے کا دعویٰ بھی تاحال قائم ہے۔ 

متحدہ اپوزیشن کا اجلاس 

وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے متحدہ اپوزیشن کا اجلاس اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری، اختر مینگل، خالد مقبول صدیقی، خالد مقصود اور شاہ زین بگٹی بھی شریک تھے۔

اپوزیشن جماعتوں کی قانونی ٹیم بھی اجلاس میں شریک ہوئی۔ قانونی ٹیم نے ممبران کو آئین کی شقوں پر بریفنگ دی اور عدم اعتماد کے طریقہ کار کے تکنیکی پہلو سمجھائے۔ اپوزیشن نے حکومتی اراکین کے اشتعال انگیز بیانات کا جواب نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ووٹنگ کیسے ہوگی؟

آئین کے مطابق رائے شماری کا طریقہ کار نافذ کرنا اسپیکر کا کام ہے جن کی غیر موجودگی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری یہ ذمہ داری سنبھالیں گے۔ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے حق میں اور مخالف اراکین اپنی نشستوں سے اٹھ کر مخالف سمتوں میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔

تحریکِ عدم اعتماد کے حق میں اور مخالف اراکین کو گن لیا جاتا ہے۔ اراکین کے پاس یہ اختیار بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی نشست پر براجمان رہیں۔ اگر حکومت کا کوئی رکن اٹھ کر اپوزیشن کی طرف جائے تو اس کا پتہ چل جاتا ہے جسے نااہل کیا جاسکتا ہے۔

مجموعی طور پر 342 اراکین پر مشتمل ایوان میں سے وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے اپوزیشن اور ناکامی کیلئے حکومت کو سادہ اکثریت کی ضرورت ہے جو 172 اراکین بنتی ہے۔ 172اراکین پیش کرنا اپوزیشن کی ذمہ داری ہے۔

اگر وزیر اعظم کے خلاف اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کامیاب رہی تو نہ صرف وزیر اعظم عمران خان اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکیں گے بلکہ پوری کابینہ خودبخود تحلیل ہوجائے گی جس میں وفاقی وزراء اور معاونینِ خصوصی شامل ہیں۔ 

Related Posts