جیسے ہی بارش کی بوندوں نے ہال سے باہر ایک پرسکون راگنی الاپنا شروع کی، تھیٹر کا آرام دہ ماحول سینی فیلس کو ایک خوشگوار سینما کے تجربے سے دوچار کرگیا۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پرسکون اور خاموش نیشنل کونسل آف دی آرٹس میں بارش کی مٹی کی خوشبو سے لبریز منظر نے سارا ماحول معطر کردیا جبکہ یہ کوئی عام فلمی نمائش نہیں تھی۔ برسات کے دنوں میں سامنے لایا جانے والا سینما ایونٹ تھا۔
قازق خانات کی نمائش اسلام آباد کے باسیوں کیلئے ایک خاصے کی چیز تھی جہاں قازقستان کے سفارت خانے کی جانب سے ہماری وزارتِ قومی ورثہ کے تعاون سے ایک تقریب منعقد کی گئی جو تصویری نمائش کے ساتھ ساتھ فنِ تعمیر کی خوبصورتی پر بھی مبنی تھی۔
تقریب کیا تھی، یہ ثقافت و روایات کا حسین امتزاج تھا جو قازق کلچر کا حصہ ہے جہاں کہانی سنانے کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے جس سے قازقستان کا خوابناک منظر عیاں ہوتا ہے۔ قازقستان کے سفیر یرژان کسٹافن اور ان کے کچھ ساتھی روایتی لباس میں ملبوس نظر آئے اور خصوصاً خواتین نے زیادہ رنگین اور دلکش لباس زیبِ تن کر رکھے تھے جس سے ماحول مزید خوبصورت ہوگیا۔
دوسری جانب باہر بارش برستی رہی اور آڈیٹوریم کے اندر قازق خانات نے اپنی کہانی سنائی، قبائلی اتحاد، قدیم دشمنی، 1450ء کی دہائی میں جنگی مناظر، بڑے پیمانے پر کی گئی ہجرت اور بھوک کی کہانی نے سامعین و ناظرین کو حیرت اور تجسس کے ایک نئے جہان میں پہنچا دیا جہاں قازق قبائل کیلئے زمین کے ایک پر امن ٹکڑے اور ایک نئے ملک کی تلاش جاری تھی۔
دراصل ڈائمنڈ سورڈ یعنی ہیرے کی تلوار کہلانے والا قازق خانات پہلے قازق دور کاایک تاریخی ڈرامہ ہے جسے بی بی سی نے قازق گیم آف تھرونز کہا۔ یہ تمام تر کہانی پندرہویں صدی عیسوی میں واقع ہوئی اور یہ پلاٹ خانز زانی بیک اور کیری کی قیادت میں قازق ریاست کے قیام کے اہم واقعات کو ظاہر کرتا ہے۔ رستم عبدراشیف، سمگل یلوبائیف اور تیمور زاکسیلیکوف کی تحریر کردہ، ڈائمنڈ سورڈ کو رستم عبدراشیف نے ڈائریکٹ کیا تھا اور اسے ارمان آسنوف نے 2016 میں پروڈیوس کیا ۔
ڈرامے کا اردو ورژن پاکستان میں تیار کیا گیا تھا جس نے مقامی ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا جن کیلئے ڈرامے کے کردار ایک نئی زندگی پیش کرتے نظر آئے اور اور کہانیاں اس شدت کے ساتھ سامنے آنے لگیں جو باہر کے طوفان کی عکاسی کرتی ہے۔
آخر میں، جیسے جیسے اسکرین پر الفاظ ابھرتے ہیں اور روشنیاں آہستہ آہستہ روشن ہوتی ہیں، سامعین کی طرف سے اطمینان کی اجتماعی سانسیں آتی ہیں۔ یہاں سے روانہ ہونے والے سامعین و ناظرین اپنے ساتھ ایک ناقابل فراموش شام کی یادیں لے کر گئے جو عظیم کہانی سنانے، ہلکی بارش اور تھیٹر کے آرام دہ حصے کی صحبت میں گزری تھی۔
قازقستان کی جانب سے اس تقریب کے مہمانِ خصوصی دو نگران وفاقی وزراء تھے۔ وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی اور ثقافتی ورثہ کے وزیر جمال شاہ نے بھی دونوں ممالک کے عوام کے درمیان مضبوط ثقافتی اور تجارتی تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
مرتضیٰ سولنگی نے ملک کو درپیش عصری چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے سینما کی اہمیت کو فروغ دیتے ہوئے ملک میں سنیما کو فروغ دینے کے لیے تمام وسائل کی دستیابی کی یقین دہانی کرائی حالانکہ پاکستان میں عام انتخابات منعقد ہونے کے بعد آئندہ 2 ہفتوں میں مرتضیٰ سولنگی سمیت پوری حکومت تبدیل ہونے والی ہے۔
نگراں وزیر برائے قومی ورثہ اور ثقافت جمال شاہ نے کہا کہ سینما لوگوں کو تعلیم، تفریح اور حوصلہ افزائی کے لیے ابلاغ کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ فلمیں لوگوں کی جدوجہد، کامیابیوں، امنگوں، ناکامیوں، کامیابیوں، دکھوں اور ڈراؤنے خوابوں پر مبنی کہانیوں کو اجاگر کرتی ہیں۔ پاکستان اور قازقستان تاریخ، مذہب اور علاقائی قربت کے بندھن میں بندھے ہوئے دو برادر ملک ہیں۔
قبل ازیں قازقستان کے سفیر یرژان کِسٹافن نے دونوں ممالک کے عوام کو فائدہ پہنچانے کے لیے دو طرفہ ثقافتی اور تجارتی سفارت کاری کی ضرورت پر زور دیا۔ تیز رفتار اور فعال دو طرفہ پیشرفت کے لیے ان کی خواہش بے جا نہیں ہے۔ مئی 2021 میں اسلام آباد میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے وہ اس عہدے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، اور قازقستان کی تجارتی اور ثقافتی سفارت کاری کے لیے اپنے ملک کے لیے بہت سے اقدامات اٹھانے، اور مقامی لوگوں کے دلوں اور روحوں کو جیتنے کے لیے ایک کامیاب مہم کی تیاری کر رہے ہیں۔
انہوں نے تقرری سے قبل امریکہ میں قازقستان کے قونصل سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس کے پاس غیر معمولی قابلیت ہے اس لیے انہیں فرسٹ کلاس، اور پاکستان میں اب تک کے بہترین غیر ملکی سفارت کاروں میں سے ایک قرار دینا بے جا نہیں ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ قازقستان کے دفتر خارجہ کی ہیرے کی تلوار ہیں تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ ایسے فعال سفارت کار سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔