جامعہ اردو GRMC اجلاس سے قبل PhD مقالے کی رپورٹ سامنے آنے پر سوالات اٹھ گئے

مقبول خبریں

کالمز

zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟
Eilat Port Remains Permanently Shut After 19-Month Suspension
انیس (19) ماہ سے معطل دجالی بندرگاہ ایلات کی مستقل بندش
zia-1-1-1
دُروز: عہدِ ولیِ زمان پر ایمان رکھنے والا پراسرار ترین مذہب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

PhD dissertation Report came out before Jamia Urdu GRMC meeting

کراچی :جامعہ اردو کے جی آر ایم سی کے اجلا س سے قبل  ریسرچ اسکالر کے پی ایچ ڈی مقالے کی بین الاقوامی ماہر کی خفیہ رپورٹ منظر عام پر آ گئی ہے جس نے جامعہ اردو کی انتظامیہ اور اکیڈمک  پر کئی سوالات اٹھا دیئے ہیں ۔

جامعہ اردو کے شعبہ ابلاغ عامہ میں ایسے موضوع پر تحقیق کی گئی ہے جس کو بین الاقوامی سطح پر جانچ کرنے والے پروفیسر نے ابلاغ عامہ کے بجائے اردو کی تحقیق تسلیم کرتے ہوئے ڈگری دینے کی سفارش کی ہے۔

 جامعہ اردو کی معاہداتی ٹیچر ثنا غوری نے ایم فل لیڈنگ ٹو پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا تھا جس میں انہوں نے ڈاکٹر اوج کمال کے ماتحت بچوں کی ذہنی صلاحیت کے فروغ میں ماہنامہ نونہال (کراچی)کے کردار کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ 1953 تا 2016کے عنوان پر تحقیق کی تھی ،ڈاکٹر اوج کمال ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے پی ایچ ڈی پروگرام کے منظور شدہ نگران بھی نہیں ہیں تاہم اس کے علاوہ ثنا غوری کی تحقیق پر ایک اور تنازعہ بھی سامنے آیا ہے۔

ریسرچ اسکالر ثنا غوری کا مقالہ جامعہ انقرہ کی فیکلٹی برائے زبان ، تاریخ و جغرافیہ کے اردو ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر Dr Aykut Kismir کو بھیجا گیا تھا، ذرائع کا دعویٰ ہےکہ ثنا غوری کے مقالے(بچوں کی ذہنی صلاحیت کے فروغ میں ماہنامہ نونہال (کراچی) کے کردار کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ 1953تا2016) پر بحیثیت ماہر Dr Aykut Kismir نے رائے (Evaluate) دی ہے کہ میں نے ثنا غوری کے پی ایچ ڈی اردو کے مقالے کو Evaluate کیا ہے اور یہ بہترین تحقیق ہے اور اس کو جلد شائع کیا جائے اور انہیں پی ایچ ڈی اردو کی ڈگری جاری کی جائے ۔

معلوم رہےکہ ریسرچ اسکالر ثنا غوری کی تحقیق ابلاغ عامہ کی تھی جس کو اردو کے ریسرچ اسکالر کے بجائے متعلقہ شعبہ کے ماہر کے پاس ہی Evaluation کے لئے بھیجا جانا تھا ، جامعہ اردو میں گزشتہ کئی برس سے ریسرچ اسکالر کے پی ایچ ڈی مقالہ جات کو جانچ کے لئے متعلقہ مضمون کے ماہر کے پاس ہی بھیجنے کی روایات عام ہے، اس میں بعض ریسرچ اسکالرز کو انتظار کا بھی سامنا کرایا جاتا رہا ہے۔

تاہم مس ثنا غوری کے تحقیقی مقالے کو ترکی کی معروف جامعہ انقرہ کی فیکلٹی برائے زبان ، تاریخ و جغرافیہ کے اردو ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر Dr Aykut Kismir کو بھیج کر کوئی بڑی غلطی نہیں کی گئی تاہم کوئی بھی تحقیقی مقالہ Evaluation کے لئے بھیجنے کے لئے متعلقہ شعبہ کا ماہر ہونا ضروری ہے، ضروری امرکے تحت مقالہ ڈسپلن کے پروفیسر کے پاس بھیجنے کی گنجائش موجود ہے تاہم دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر کے ریمارکس اِ س صورت میں انتہائی اہمیت کے حامل ہو جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں:وزیر اعلیٰ ہاؤس میں گریڈ 20 کے مستقل DGکالجز کی تعیناتی کی سمری دبا دی گئی

ماہرین تعلیم کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اگر کسی ابلاغ عامہ کے تحقیقی مقالے کو اردو کا بین الاقوامی ماہر Evaluate کرے گا تو اس کی رائے کو بھی مانا جا سکتا ہے ، ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ اگر ابلاغ عامہ کے تحقیقی مقالے پر اردو کی ڈگری جاری کرنے کی سفارش کی گئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ایسی تحقیق پر آنے والی رپورٹس متنازعہ ہو جاتی ہیں اور اس پر جی آر ایم سی ڈگری روکنے کا کہہ سکتی ہے ۔

ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ اگرچہ ثنا غوری کی تحقیق ابلاغ عامہ میں ہے تاہم ان کا موضوع اردو ادب کے قریب ترین ہے ، جس کی وجہ سے بین الاقوامی ماہر کی رائے اس طرف گئی ہو گی ، جس کی وجہ سے بین الاقوامی ماہر نے اس تحقیق کا ابلاغ عامہ کے بجائے اردو ادب پر تحقیق سمجھ کر دیانتدارانہ رائے ہی دی ہے۔

ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ متعلقہ شعبے کے پروفیسر کو مقالہ نہیں بھیجا گیا جس کی وجہ سے صدر شعبہ اور اس وقت کے وائس چانسلر سے بھی باز پرس ہونی چاہئے کیونکہ مقالہ کی رپورٹ متنازعہ ہو گئی ہے اس لئے اس میں ابہام کو ختم کرنے کے لئے یہی مقالہ کسی تیسرے ماہر کو بھیجا جائے ۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پی ایچ ڈی پالیسی برائے 2021 کے پوائنٹ 4اعشاریہ 3 کے مطابق پی ایچ ڈی کے ریسرچ اسکالر کو ڈگری ایوارڈ کرنے سے قبل اسکالر کو موضوع سے متعلق ایک Comprehensive امتحان پاس کرنا ضروری ہے جس میں فیل ہونے کی صورت میں ریسرچ اسکالر کو ایک ہی موقع مزید دیا جائے گا ، جس میں کامیابی کے بعد اسے جی آر ایم سی ڈگری جاری کر سکے گا ۔جامعہ اردو اب تک کسی ریسرچ اسکالر سے کمپری ہینسو امتحان لیئے بغیر ڈگریاں تفویض کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔

اس حوالے سے ریسرچ اسکالر ثنا غوری کو بھیجے گئے سوالات کے جوابات میں انہوں نے بتایا کہ میں طالب علم ہوں اور طالب علم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرتا ہے، سپروائزر HEC سے کس حیثیت سے وابستہ ہے یہ جاننا میرا مسئلہ نہیں ہے ۔میرا مقالہ یونیورسٹی کی GRMC سے منظور ہو کر مختلف ممالک میں گیا ۔ کسے گیا یہ طالب علم نہیں جانتا، یہ مکمل طور پر GRMC کو موصول ہونے والی مختلف ممالک سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والوں کے نام پر مشتمل فہرست ہوتی ہے اور یہ وہ اساتذہ ہوتے ہیں جو باہر ملک میں وہاں کی یونیورسٹی میں اس وقت نوکری بھی کر رہے ہوں ۔ جنہیں طالب علم نہیں جانتا ۔

ثنا غوری نے جواب میں مزید لکھا کہ میں یہ ضرور علم رکھتی ہوں کہ اس فہرست میں دس سے بارہ نام تجویز کیے جاتے ہیں ‛ جو کہ وی سی جو جی آر ایم سی کا سربراہ ہوتا ہے اسکی منظوری کے بعد مقالہ ان اساتذہ کو بھیجا جاتا ہے ۔جہاں تک امتحان کی بات ہے میں نے اپنے تمام مراحل مکمل کئے ہیں۔سیمینارز اور زبانی امتحان بھی ،میں نے جتنی محنت سے اپنا کام کیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ میں نے اپنے مقالہ کی وجہ سے نوکریوں کو خیر باد کہا اور ایک سال مسلسل ہمدرد یونیورسٹی کا تنہا سفر کیا اور انڈیا تک سے رابطے کئے۔

میرا مقالہ انجمن ترقی اردو کے تحقیقی مجلے اردو میں شائع ہوا جو کہY کیٹگری کا اردو کا رسالہ ہے اور اس کیٹگری کا مطلب ہے کہ یہ عالمی سطح پر مانا جائے گا۔

Related Posts