سانحہ آرمی پبلک اسکول

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہر سال 16 دسمبر کے روز قوم کے زخم ہرے ہوجاتے ہیں اور ہمیں 2014 کا وہ خون آشام وقت یاد آتا ہے جب ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے 144 بچوں سمیت 150 سے زائد افراد کو آرمی پبلک اسکول میں بد ترین دہشت گردی کے دوران قتل کردیا۔

گوکہ باوقار قومیں اپنے تلخ واقعات بھلانے کی بجائے انہیں یاد رکھتی اور اپنی خامیوں کا تدارک کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں تاہم 7 سال بعد بھی اے پی ایس شہداء کے لواحقین انصاف مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔

گزشتہ ماہ 10 نومبر کو سپریم کورٹ نے اے پی ایس حملہ کیس میں وزیر اعظم عمران خان کو عدالت طلب کیااور آرمی پبلک اسکول میں ہونے والی دہشت گردی پر مختلف سوالات کیے۔ یہاں حکومت کی جانب سے دئیے گئے جوابات بدقسمتی سے تسلی بخش نہیں تھے۔

قبل ازیں عدالتی کمیشن نے جسے ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے متعلق حقائق معلوم کرنے کیلئے تشکیل دیا گیا تھا، اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اے پی ایس واقعہ دراصل سیکورٹی اداروں کی ناکامی ہے جس سے سیکورٹی نظام پر سوالات اٹھنے لگے۔

کمیشن کی رپورٹ پر کارروائی کے سوال پر وزیر اعظم نے بتایا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے لواحقین کو معاوضہ ادا کیا جس پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دئیے کہ لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کی جارہی ہے؟۔

جسٹس قاضی امین کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ حکومت ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرنے والی ہے۔ کیا بچوں کو شہید کرنے والوں سے مذاکرات کرکے حکومت شکست کی ایک اور دستاویز پر دستخط کرنے والی ہے؟۔

بعد ازاں وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے میڈیا کو بتایا کہ وزیر اعظم نے سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کا کہنا ہے کہ اے پی ایس واقعے میں ذمہ داروں کا تعین 4ہفتوں میں کیا جائے۔ حکومت یہ معاملہ آگے لے جائے گی تاہم چند روز قبل حکومت کی درخواست پر عدالت نے عملدرآمد رپورٹ پیش کرنے کیلئے مزید مہلت دیدی ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس ابراہیم خان کی قیادت میں قائم کیے گئے عدالتی کمیشن کی 500 صفحات پر مشتمل رپورٹ گزشتہ برس جولائی میں چیف جسٹس کو ارسال کی گئی۔ رپورٹ میں زخمی بچوں اور شہداء کے لواحقین سمیت 132افراد کے بیانات شامل تھے۔

عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اے پی ایس سانحہ پر 101عام شہریوں اور 31 سیکورٹی افسران اور اہلکاروں نے بیانات دئیے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 27 دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا جن میں سے 12گرفتار جبکہ 9ہلاک ہوئے۔

متعدد دہشت گردوں کو عسکری عدالتوں میں مقدمہ چلا کر سزا سنائی گئی تاہم تمام تر دہشت گردوں کو پکڑنا ہوگا، شہداء کے لواحقین کو طفل تسلیوں سے مطمئن نہیں کیاجاسکتا۔ حکومت کو چاہئے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کی بجائے قومی تقاضے پورے کرے۔

غور کیا جائے تو اے پی ایس میں ہونے والی دہشت گردی نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس لیے یہ چند خاندانوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کا المیہ ہے۔ حکومتِ وقت آرمی پبلک اسکول کے شہداء کے لواحقین کو معاوضہ ادا کرکے اپنے فرائض سے دستبردار نہیں ہوسکتی۔

دہشت گردوں کا کوئی مذہب، مسلک، عقیدہ اور ملک نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم عمران خان کو واقعے میں ملوث تمام ملزمان کی گرفتاری کا حکم دے کر آرمی پبلک اسکول جیسے خوفناک واقعے کے ذمہ دار ہر شخص کو کیفرِ کردار تک پہنچاکر ملک میں ایسے سانحات کی روک تھام کیلئے اقدا مات اٹھائیں۔

Related Posts