خوشبو کی سفیر، باکمال شاعرہ پروین شاکر کی 69ویں سالگرہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پروین شاکر
خوشبو کی سفیر، باکمال شاعرہ پروین شاکر کی 69ویں سالگرہ

خوشبو کی سفیر کہلانے والی اردو کی باکمال شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے ہوئے 26 سال کا طویل عرصہ گزرا جبکہ عہد ساز شاعرہ کی 69ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔

کراچی میں پروین شاکر نے  24 نومبر 1952ء کو آنکھ کھولی جبکہ شہرتِ دوام حاصل کرنے والی پروین شاکر کا مجموعہ خوشبو شاعری کے میدان میں دیکھتے ہی دیکھتے پہلی پہچان بن گیا۔

یہ بھی پڑھیں:

شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کا 144واں یومِ ولادت 

رقص زنجیرپہن کر بھی کیا جاتا ہے، حبیب جالب کی سالگرہ 

اردو کی باکمال شاعرہ پروین شاکر کا پہلا مجموعہ 1976ء میں شائع ہو کر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچا تو ملک بھر میں پروین شاکر کے چرچے ہونے لگے جس کے بعد ماہِ تمام، خود کلامی اور انکار نے شائقینِ شاعری کے دل موہ لیے۔

حیرت انگیز طور پر پاکستانی معاشرے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ بعض لوگ موت سے پہلے اس کی آمد کا علم رکھتے ہیں۔ پروین شاکر کو بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ایک سمجھا گیا، جس کی گواہی ان کے اشعار میں دیکھی جاسکتی ہے، خصوصاً یہ شعر:

مر بھی  جاؤں تو کہاں لوگ بھُلا ہی دیں گے

لفظ میرے مِرے ہونے کی گواہی دیں گے

شاعری کے علم پر دسترس رکھنے والوں کے الفاظ میں پروین شاکر کی شاعری میں ایک الگ اور منفرد اندازِ بیان نظر آتا ہے جو قاری کو ذہن و فکر کی ہر سطح پر متاثر کرتا ہے اور اپنا مداح بناتا چلا جاتا ہے:

بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے

یہی کیا  کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے؟

بزمِ انجم میں قبا خاک کی پہنی میں  نے

اور مِری ساری فضیلت اِسی پوشاک سے ہے

خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے

وہ رویہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے

ہاتھ تو کاٹ دئیے کوزہ گروں کے ہم نے

معجزے کی وہی اُمید مگر چاک سے ہے 

شاعری کے شعبے میں جدت لانے کیلئے اردو زبان میں بہت کام ہوا۔روایتی شاعری کے موضوعات بشمول عشق، بے وفائی اور ہجر و وصال کے ساتھ ساتھ جدید شاعری کے استعارے اور اندازِ بیان بھی پروین شاکر کا خاص ہتھیار ثابت ہوا:

عقب  میں گہرا سمندر ہے، سامنے جنگل

کس انتہا پہ مِرا مہربان چھوڑ گیا؟

عقاب کو تھی غرض فاختہ پکڑنے سے

جو گر گئی تو یونہی نیم جان چھوڑ گیا

علم و فضل انسان کو معرفت کی بلندی پر پہنچا دیتا ہے۔شاعری کے ساتھ ساتھ شعبۂ تدریس اور سول سروس میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والی پروین شاکر کا امتیاز صرف اور صرف اُردو شاعری بنی جو ہر دور میں انہیں زندہ رکھے گی۔

پروین شاکر کی شعبۂ ادب میں خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے خوشبو کی سفیر شاعرہ کو 1990ء میں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور آدم جی ادبی ایوارڈ سے بھی نوازا۔

بدقسمتی سے پروین شاکر 26 دسمبر 1994 کو ایک کار ایکسیڈنٹ کے باعث اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں، لیکن خوشبو کی سفیر شاعرہ کی کتابیں اور زبان و بیان آج بھی زندہ ہے جسے ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ 

Related Posts