پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو پارٹس مینوفیکچررز (پاپام) نے نیشنل ٹیرف پالیسی 2025-30 پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس پالیسی کے نفاذ سے ملکی آٹو پارٹس انڈسٹری کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
لاہور میں منعقدہ ہنگامی اجلاس میں پاپام کے اراکین نے مؤقف اپنایا کہ وزارتِ صنعت و پیداوار اور انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ (EDB) کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے باوجود، ان کی تشویشات کو نظرانداز کیا گیا ہے، اور آئی ایم ایف کنسلٹنٹس کی سفارشات کو یکطرفہ طور پر اختیار کرنا مقامی صنعت کے حق میں نہیں۔
پاپام کے مطابق مجوزہ ٹیرف پالیسی کے تحت آٹو پارٹس پر درآمدی ڈیوٹیز میں ممکنہ کمی، مقامی پیداوار کی حوصلہ شکنی کرے گی۔ اس اقدام سے نہ صرف درآمدات میں اضافہ ہوگا بلکہ ملک کے محدود زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ بھی بڑھے گا۔
یہ پالیسی ان حالات میں متعارف کروائی جا رہی ہے جب ملک پہلے ہی صنعتی جمود اور مہنگائی جیسے چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ ایسے میں اگر سستی درآمدات کو کھلی چھوٹ دے دی گئی تو مقامی مینوفیکچررز کا سروائیو کرنا مشکل ہو جائے گا، نتیجتاً صنعتوں کی بندش اور بیروزگاری میں اضافہ ہوگا۔
پاپام اراکین نے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی کہ آٹو پارٹس انڈسٹری ہنر مند افرادی قوت کی تربیت کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ یہی تربیت یافتہ افراد بعد میں بیرونِ ملک جا کر ملکی معیشت کے لیے قیمتی زرمبادلہ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اگر یہ شعبہ متاثر ہوتا ہے تو اس کا اثر نہ صرف قومی صنعت بلکہ برآمدی افرادی قوت پر بھی پڑے گا۔
پاپام چیئرمین عثمان اسلم ملک اور سینئر نائب چیئرمین شہریار قادری نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ٹیرف میں کسی بھی قسم کی تبدیلی مشاورت کے عمل سے گزر کر، مرحلہ وار کی جائے تاکہ مقامی صنعت کو وقت ملے کہ وہ عالمی مقابلے کے لیے خود کو تیار کر سکے۔
اگر حکومت پالیسی سازی میں صنعتکاروں کی تجاویز کو نظرانداز کرتی رہی، تو یہ نہ صرف معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے گا بلکہ صنعتی خود کفالت کے خواب کو بھی دھندلا دے گا۔ اس وقت ضرورت ہے ایسی معاشی حکمت عملی اپنانے کی جو بیرونی دباؤ کے بجائے ملکی زمینی حقائق کے مطابق ہو۔
نیشنل ٹیرف پالیسی کا حتمی ڈھانچہ تیار کرتے وقت حکومت کو چاہیے کہ وہ صرف عالمی مالیاتی اداروں کی سفارشات کے بجائے، مقامی صنعتکاروں کے تجربے اور خدشات کو بھی مساوی اہمیت دے، تاکہ پائیدار صنعتی ترقی کا خواب حقیقت بن سکے۔