50 سالہ باہمت فلسطینی خاتون سامیہ ابو علقم نے معمول سے ہٹ کر پیشہ اپنا کر لوگوں کو حیران کردیا ہے۔ باہمت خاتون نہ صرف خود پبلک ٹرانسپورٹ بس کی ڈرائیور بن گئی بلکہ اس نے فلسطینی خواتین کے لیے بسیں چلانے کی راہ بھی ہموار کردی ہے۔
فلسطینی معاشرہ کا بیشتر حصہ سامیہ ابو علقم کو پبلک بسیں چلانے کی مخالفت کر رہا ہے تاہم اس پیشے سے سامیہ کی محبت نے اس منفی نظریے پر قابو پانے میں مدد کی اور سامیہ نے دوسری خواتین کے لیے اس پیشے کی اجارہ داری کو توڑنے کا راستہ کھولنے میں اہم کردار ادا کردیا۔ طویل عرصہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں مرد ہی وابستہ ہیں۔

دلیری، مہارت اور سکون کے ساتھ، سامیہ تقریباً دو سالوں سے رام اللہ اور القدس کے درمیان روٹ پر عوامی بس چلا رہی ہیں۔
سامیہ کو بس چلاتے دیکھ کر فلسطینی حیران ہوتے ہیں اور اس کو مغربی طرز قرار دیتے ہیں۔ سامیہ تمام عمر کے فلسطینی لوگوں کے تمام گروہوں کے ساتھ رابطے میں رہتی ہیں۔ اس روٹین نے ان کے ارادوں کو بھی مضبوط کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
مسلمانوں کی جانب سے عبادت کیلئے مسجد کی پیشکش، مسیحی رہنما کی ویڈیو وائرل
سامیہ نے وینزویلا سے اپنے آبائی شہر القدس واپس آنے سے قبل 30 سال قبل چھوٹی گاڑیاں چلانے کا لائسنس حاصل کیا تھا۔ سامیہ نے بس چلاتے ہوئے دیگر خواتین کے لیے راہیں کھولنے میں اپنا کردار ادا کرنے پر فخر کا اظہار کیا۔ تاہم انہوں نے منفی تبصروں کے باعث اپنے عدم اطمینان کو بھی نہیں چھپایا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے مکمل یقین کے ساتھ اس صورت حال کا سامنا کیا ہے کیونکہ بس چلانا کوئی شرمناک یا حرام کام نہیں ہے۔
بہ قول سامیہ ان کے بس چلانے کے مخالفین کی طرف سے جو دلائل پیش کیے گئے ہیں وہ منطقی نہیں ہیں اور اب وہ ان بحثوں پر توجہ نہیں دیتی ہیں۔
سامیہ نے ان لڑکیوں کو جو مردانہ سمجھے جانے والے پیشے اختیار کرنا چاہتی ہیں کو بھی کہا کہ معاشرے کی مایوس کن تنقید کو نظر انداز کر دینا چا ہیے۔ بس چلانا سیکھنے کے خوف کی رکاوٹ کو توڑنا ہوگا۔
فلسطین میں خواتین کی تعداد 2.7 ملین اور تقریباً 49 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ان میں سے 12 فیصد گھرانوں کی سربراہ ہیں۔