گزشتہ روز کے بھارت بنگلہ دیش میچ پر بات کرنے سے قبل آئیے آپ کو ماضی کا ایک سفر کرواتے ہیں ۔
یہ 1989 کا قذافی سٹیڈیم لاہور ہے، بھارت کی ٹیم اپنے طویل دورۂ پاکستان کے آخری میچ میں تماشائیوں کے بھرے ہوئے سٹیڈیم میں پاکستان ہی کے خلاف نبرد آزما ہے، اس دورے میں چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز صفر صفر سے برابر رہی اور پاکستان نے چار ون ڈے میچز کی سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کی ہوئی ہے، اور دو میچز بارش کا شکار ہونے کے بعد بھارت کو یہ سیریز برابری پر ختم کرنی تھی ۔
میدان میں تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی اور تماشائی بارش کی وجہ سے فرسٹریشن نکلتی دیکھنا چاہتے تھے اس لیے میچ کو نتیجہ خیز اور غیر متنازعہ ہونا ضروری تھا ۔
پاکستان نے اس چالیس اوور کے میچ میں بارش سے متاثر ہونے کے بعد مقررہ 37 اوورز میں جاوید میاں داد کے 30 رنز کی بدولت 8-150 کا مجموعہ درج کیا۔
بھارت کی جانب سے رامن لمبا اور سدھو پا جی کے جلدی آؤٹ ہونے کے بعد سری کانت نے کچھ قدرے بہتر کھیلنا شروع کیا اور ایک وقت میں سکور 3-66 ہو گیا ۔
اب یہاں وقار یونس نے گیند تھامی اور سری کانت کو وکٹوں کے سامنے ٹانگ کرنے کی پاداش میں ایمپائر نے باہر جانے کا اشارہ کیا، اس زمانے میں ٹیکنالوجی ابھی طفلِ مکتب تھی اور سائنس کے دودھ کے دانت بھی نہیں آئے تھے، اس لیے نہ الٹرا ایج کی سہولت تھی اور نہ ہی بال ٹریکنگ کا دھوکہ
بلے باز کو جانا تھا سو وہ چل پڑا مگر روایتی بھارتی لیت و لعل سے ایمپائر کے فیصلے پر بڑبڑاتا ہوا جا رہا تھا کہ پاکستان کے کپتان اور خانوں کے خان جناب عمران خان نے سن لیا، میانوالی کا پٹھان جوش میں آیا اور سری کانت کو واپس بلا لیا، ایمپائرز حیران رہ گئے، تماشائیوں نے آسمان چیخ چیخ کر سر پر اٹھا لیا اور سبھی حیران رہ گئے کہ ایک انتہائی بولڈ فیصلہ ہے جو گلے پڑ سکتا ہے مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ مقابل عمران خان ہے جو جیتنا چاہتا ہے تو ایمانداری سے (صرف کرکٹ کی حد تک) جس کو عزت سے ملی ہار قبول ہے مگر متنازعہ جیت ہر گز قبول نہیں ۔
سری کانت کو واپس بلے بازی کیلیے بلایا جاتا ہے اور پھر چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ اگلی ہی گیند پر بلے کا بیرونی کنارہ لگتا ہے اور واضح طور پر سری کانت کا ساف ستھرا کیچ پکڑ کر بھارت کو ہمیشہ کیلیے شرمندہ کر دیا جاتا ہے ۔
بعد ازاں پاکستان نے وہ میچ 38 رنز سے جیت کر ون ڈے سیریز دو صفر سے اپنے نام کر لی، یہ ہونا ہی تھا کیونکہ “ایماندار کھائے بوٹی، بے ایمان کھائے روٹی”
زمانہ گذر گیا، شب و روز بیت گئے مگر عمران خان کی یہ بات شائقین کرکٹ کو آج بھی بے حد پسند ہے اور ازمنہ ء قدیم سے ہی اسی لیے کہا جاتا تھا کہ واقعی
“کرکٹ شرفاء کا کھیل ہے”
cricket is gentleman’s game
اور اسے عمران خان نے ثابت کروایا تھا ۔
لیکن عزیزانِ من۔۔۔۔!
اب وہ دور چلا گیا، اب کرکٹ کی روح داغدار ہو چکی ہے، اب یہاں کمی کمین آ چکے ہیں جو بس جیتنا چاہتے ہیں، جو مکس مارشل فائٹ کے کسی بھی کھلاڑی کی طرح کسی بھی قسم کے قانون سے مبرا اور آزاد ہو کر ہر داؤ پیچ اور حربہ استعمال کر کے فتح کو گلے لگانا چاہتے ہیں، اب ان کو ان کے طاقتور بورڈز کی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے، اب ان کو ایمپائرز کی ملی بھگت کا بھی ساتھ ہوتا ہے اور حد تو یہ ہے کہ کرکٹ کی عالمی تنظیم آئی سی سی بھی کرکٹ کی روح اور اس کے سپرٹ کو داغدار کرنے میں پیش پیش نظر آتی ہے کیونکہ اب ہر طرف پیسہ بولتا ہے اور بھارت پیسے اور کرکٹ کی سب سے بڑی منڈی ہے، اس کی ناراضگی کون مول لے؟
سازش میں شامل، سارا جہاں ہے
بھارت اور بنگلہ دیش کے میچ میں گزشتہ روز بنگلہ دیش نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا، ویرات کوہلی کے 64 اور راہول کے پچاس رنز کی بدولت بھارت نے چھ وکٹوں کے نقصان پر 184 رنز سکور بورڈ پر سجا دیے، کوہلی جیسے بڑے کھلاڑی کا چھوٹا پن آج پھر عروج پر رہا اور ایمپائرز سے مطالبہ کر کے وائیڈز وصول کرتا رہا ۔
بھائی اب تو آئی سی سی کو ایمپائرز سسٹم ختم ہی کر دینا چاہیے کیونکہ جو کوہلی چاہے گا وہی کچھ ہو گا، پاکستان کے خلاف میچ میں بھی دو مسلسل گیندوں پر نو بال کا مطالبہ کر کے اپنی جیت کو مشکوک بنا دیا اور آج بھی۔
بہرکیف جب بنگلہ دیش نے بلے بازی شروع کی تو لٹن داس نے ہر گیند باز کو دھو کر رکھ دیا پاور پلے میں، شامی کو رگڑا تو پانڈیا کو گھسیٹا، بھونیشور کو مارا تو ایشون کو سبق سکھایا اور کیا ہی عمدہ کھیلے، سات اوورز کے اختتام پر جب بارش شروع ہوئی تو وہ ڈک ورتھ لوئس کے مطابق بنگلہ دیش 17 رنز آگے تھے، مطلب کہ اب اگر میچ نہیں ہوتا تو بنگلہ دیش یہ میچ سترہ رنز سے جیت جاتا۔
اسی دوران ایمپائرز کی مدد آن پہنچی اور گراؤنڈ سٹاف کو برستی بارش میں میدان سے پانی نکالنے کا حکم دیا گیا حالانکہ پچ ابھی تک ڈھکی ہوئی تھی اور جب میدان پوری طرح خشک بھی نہیں ہوا تھا کہ ایمپائرز نے کھیل شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا اور ایمپائرز کیوں نہ کرتے کہ یہ میچ بھارت کیلیے انتہائی ضروری تھا اور بھارت کو جتوانے کیلیے تو پورا جہان ایک ہوچکا تھا، شکیب الحسن نے میدان میں دونوں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دونوں ہاتھ میدان پر مارے اور اٹھ کر ایمپائرز کو بتلایا کہ
“مائی باپ! ابھی میدان کھیلنے کے قابل نہیں ہے، ہمارے بچے ہمارے کھلاڑی پھسل سکتے ہیں چوٹ لگ سکتی ہے” مگر کرکٹ کے ان نا خداؤں کا فیصلہ اٹل اور پتھر پر لکیر تھا، میچ شروع ہونا ہی تھا سو ہو گیا، پہلی ہی گیند پر ان فارم اور خطرے کی علامت نظر آتا ہوا لٹن داس سلپ ہوا مگر جانبداری سے ایمپائرنگ کرتے کسی بھی ایمپائر کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور پھر شاید پہلے ہی اوور میں دوسرا رن لینے کی کوشش کرتے ہوئے پھر سے لٹن داس پھسلا اور بروقت کریز تک نہ پہنچ سکا، راہول کی عمدہ ڈائرکٹ ہٹ نے لٹن داس ہی نہیں بلکہ بنگلہ دیش کو بھی میچ سے باہر کر دیا۔
اس کے بعد مومنٹم ٹوٹ چکا تھا، کھلاڑی بد دلی سے آتے اور ہوا میں بلا گھماتے ہوئے یہ جا وہ جا۔ آخری اوور سے قبل پانڈیا کی گیند واضح طور پر لکیر سے باہر تھی۔ کوہلی کی مانند نور الحسن نے مطالبہ بھی کیا مگر کمزور بورڈ کے ماڑے کھلاڑی کی یہ التجا طاقت و رعونت والے ایمپائر نے ایسے مسترد کی جیسے بنگلہ دیشی کھلاڑی شودر ہے یا کسی تیسری دنیا کا باسی۔
جب ایمپائرز جو کھیل کو قواعد و ضوابط کے مطابق پورا کروانے کے پابند ہیں وہ ہی یکطرفہ ہو جائیں تو نتیجہ پھر آپ کے خلاف ہی نکلتا ہے، چاہے وہ میچ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہو یا مغربی پاکستان کے خلاف، بھارت کو جیت ملنی ہوتی ہے سو وہ ملتی ہے۔
کرکٹ کے حلقوں میں یہ دونوں میچز متنازعہ بن چکے ہیں اور چہارِ دانگ عالم اس پر طرح طرح کے تبصرے کیے جا رہے ہیں، معاملہ اتنا گھمبیر ہے کہ گوتم جیسا بھارتی متعصب کھلاڑی بھی اب کوہلی کے نو بال کے مطالبے کو غلط قرار دے چکا ہے مگر ہمارے چڑھتے سورج کے پجاری اور بھارت سے فین فالونگ کے خواہش مند کچھ لنڈے کے تجزیہ کار اسے درست گردان رہے ہیں۔
بھائی ہمارا تو ایک واضح موقف ہے کہ میچ جو بھی جیتے مگر جیتے ایمانداری سے اور کھیل کی روح کو مجروح نہ کیا جائے ۔
ایک آخری بات !
پاکستان کیلیے صورتحال کچھ واضح مگر تسلی بخش نہیں ہے، اپنے اگلے دونوں میچز ہمیں اچھے رن ریٹ سے جیتنا ہوں گے، اور نیدر لینڈ کی جنوبی افریقہ کے خلاف فتح یا ان کا میچ ڈرا ہونے کی دعا بھی مانگنی ہو گی
یا
زمبابوے سے توقع کریں کہ وہ بھارت کو اپ سیٹ شکست دے۔
اس کے علاوہ سچ تو یہ ہے کہ ہم اسی دن ٹورنامنٹ سے باہرہو گئے تھے جب زمبابوے سے میچ ہارے تھے اور وہ غم آج بھی بھلائے نہیں بھولتا۔