چیلنجز کے باوجود پاکستان کے معاشی اشاریے مثبت ہیں، شوکت ترین

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Pakistan’s economic indicators positive despite challenges, says Tarin

کراچی:وفاقی مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کی مستحکم ترقی چاہتا ہے،چیلنجز کے باوجود پاکستان کے معاشی اشاریے مثبت ہیں،آئی ایم ایف پروگرام سے پاکستان کی معیشت سست نہیں ہوگی۔

مشیر خزانہ شوکت ترین مقامی ہوٹل میں سی ایف اے سوسائٹی پاکستان کی 18ویں سالانہ ایکسیلینس کی تقریب سے خطاب کے بعد میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ میڈیا سے گفتگو میں شوکت ترین نے کہا کہ رواں سال بشمول سروسز سیکٹر کے ایکسپورٹ40ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔برآمدات بڑھانے میں آئی ٹی سیکٹر کا اہم کردار ہوگا۔

حکومت نے بارہ ماہ میں 450ارب روپے کی سبسڈی دی ہے۔بجلی کی کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں حکومت نے 850ارب روپے فراہم کیے۔موجودہ حکومت13کروڑ عوام کو راشن پروگرام کے ذریعے ریلیف دے رہی ہے۔

آئی ایم ایف سیمارچ میں 500ملین ڈالر کی قسط پاور ٹیرف میں 4.95روپے بڑھانے کے وعدے پر موصول ہوئی تھی۔تاحال حکومت نے پاور ٹیرف میں صرف 1.39روپے کا اضافہ کیا ہے۔

قبل ازیں اپنے خطاب میں شوکت ترین نے کہا کہ پاکستان 1968 میں جنوبی کوریا اور سعودی عرب سے بڑی معیشت تھا۔

مشرقی پاکستان کے چھن جانے کے بعد ہماری راہ برقرار نہ رہی ۔ملک میں معیشت کو کو قومیا گیا ۔افغانستان کی جنگ میں بلاوجہ شامل ہوگئے۔ افغان جنگ میں پاکستان کے ایک لاکھ افراد جاں ہوئے ۔

موجودہ حکومت پر سخت شرائط کے ساتھ آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہوئے ۔آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے معیشت سست ہوئی۔

عمران خان کے وزن کی گزشتہ سال 3.9فیصد جی ڈی پی ترقی ہوئی ۔پاکستان کو 23 ملین ملازمتوں کی ضرورت ہے ۔پاکستان کو مقامی اور مستحکم ترقی کی ضرورت ہے ۔ٹیکس جی ڈی پی کا 9 فیصد ہے ۔

پاکستان کو اپنے ریونیو 23 فیصد کی شرح سے بڑھانے ہیں ۔غیر متوقع طور پر پاکستان میں غذائی قلت پیدا ہوئی ۔گزشتہ سال 10 ارب ڈالر کپاس اور اجناس کی درآمد پر صرف کیے، برآمدات جی ڈی پی کا 9 سے 10 فیصد ہیں .موجودہ برآمدات کے حالات طویل عرصہ مستحکم نہیں رکھ سکتے ہیں، پاکستان کو سمندر پار پاکستانیوں کی 29 ارب ڈالر کی ترسیلات نے بچایا۔

شوکت ترین نے کہا کہ توانائی کے شعبے کو 770 ارب روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں ۔پاکستان کا 85 فیصد قرض 7 شہروں میں استعمال ہوتا ہے۔

 بینکوں کے قرض کا 75 فیصد کارپوریٹ سیکٹر کو جاتا ہے۔ملک کے انتہائی غربت کے 40 لاکھ گھروں کو ہدف سبسڈی دینا ہوگی ۔خط غربت سے نیچے افراد 70 سال سے معیشت کے اثرات ملنے کا انتظار کررہے ہیں۔

غریب ترین گھرانوں کو کاروبار، زراعت تعلیم اور ہنرمند افرادی قوت کی تربیت دے رہے ہیں۔شوکت ترین نے کہا کہ خیبر پختونخوا بلوچستان کشمیر گلگت بلتستان اور پنجاب کے منتخب اضلاع میں غربت سے اٹھانے کا پروگرام شروع کیا ہے۔

زراعت اور صنعت کی کارکردگی بہتر جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سال 6 ہزار ارب روپے سے زائد ٹیکس جمع ہوگا ۔کرنٹ اکاونٹ خسارے سے معیشت کو نقصان ہوگا۔

کرنٹ اکاونٹ خسارے بیلنس کرنے میں مدد ملے گی ۔درآمدات تیزی سے بڑھیں گی تو انہیں روکیں گے ۔بینکوں کی پہنچ آبادی کے 30 فیصد تک ہے بنگلہ دیش میں یہ 50 فیصد سے زائد ہے۔

شوکت ترین نے کہا کہ ہم ابھی غذائی بحران کا سامنا کررہے ہیں۔گزشتہ سال ہم نے 10 ارب ڈالرز کی غذائی اجناس اور کپاس درآمد کیں۔ہم غریب ترین طبقے کی بہبود کے لیے کام کررہے ہیں۔ہم غریبوں کے لیے مکمل معاشی پیکیج لیکر آئے ہیں۔

ہم گھروں، کاروبار کے لیے آسان قرضے دے رہے ہیںہ ۔ہم توانائی کے شعبہ پر اس سال 770 ارب روپے کی سبسڈی دے چکے ہیں۔زرعی شعبہ بہت اچھی کارکردگی دکھا رہا ہے۔کپاس کی 95 لاکھ بیلز پیداوار کی امید ہے۔بڑھتی ہوئی درآمدات کو روکیں گے۔

مزید پڑھیں:3سال میں تاریخی مہنگائی، چینی کی قیمت میں اضافے کا ذمہ دار کون ؟

امید ہے کہ اس مالی سال میں 6 ہزار ارب روپے کی محصولات اکٹھی کرلیں گے۔آئی ٹی کے شعبے کو تمام سہولیات دے رہے ہیں۔پانچ سال میں آئی ٹی کی برآمدات 15 ارب ڈالر پر پہنچ جائیں گی۔مجھے امید ہے کہ بہتر معاشی پالیسی سے ہم مشکلات سے نکل جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ پانچ سال میں آئی ٹی برآمدات 15 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی ۔سی پیک کے زریعے انفراسٹرکچر کو بہتر بنائیں گے۔چینی 85 ملین ملازمتوں کو بیرون ملک منتقل کررہے ہیں ان میں ہم اپنا حصہ حاصل کریں گی۔

شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم ایف ہم سے جو چاہتا تھا ہم ان شرائط کے قریب ہیں۔آئی ایم نے جو ریونیو کا ہدف دیا ہے۔ ہم اس سے زیادہ مالیت کا ریونیو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

آئی ایم ایف پاکستان کی مستحکم ترقی چاہتا ہے ۔آئی ایم ایف پروگرام سے پاکستان کی معیشت سست نہیں ہوگی۔

شوکت ترین نے کہا کہ پاکستان میں توانائی کی قلت ہے ۔گزشتہ سال 600 ارب روپے کیپسٹی کی مد میں دیئے اس سال 800 ارب روپے دینا ہو گے ۔ایک طریقہ بجلی مہنگی کرنا ہے جس سے صنعتی ترقی متاثر ہوگی ۔

ہمیں توقع نہیں ہے کہ اگر بجلی تین فیصد سے بجائے 13 فیصد کی شرح سے استعمال بڑھے ۔بجلی میں 17 فیصد نقصان اور 10 فیصد بل وصولی نہ ہورہی یے ۔ڈیسکوز 27 فیصد نقصان کررہی ہیں ان کی تنظیم نو کرنا ہوگی۔

شوکت ترین نے کہا کہ گیس اور تیل کی تلاش پر بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ۔گیس کی کراس سبسڈی کو ختم کرنا ہوگا ۔گیس کے ہمیں متبادل ذرائع جیسا کہ ایل پی جی پر انحصار کرنا ہوگا۔

Related Posts