اسلام آباد: حکومتِ پاکستان مالی سال 2025-26 کا وفاقی بجٹ 10 جون کو پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کا مجموعی حجم 17اعشاریہ 68 کھرب روپے متوقع ہے۔
آئندہ بجٹ میں پالیسی شرح سود میں نمایاں کمی متوقع ہے جس سے قرضوں اور سود کی ادائیگیوں پر اخراجات میں تقریباً 1300 ارب روپے کی کمی ہوگی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ کا تخمینہ 17اعشاریہ 8 کھرب روپے کے قریب ہو سکتا ہے، جو رواں مالی سال کے بجٹ 18اعشاریہ 7 کھرب روپے سے تقریباً 900 ارب روپے کم ہے۔
بجٹ 2025-26 میں سخت کفایت شعاری اقدامات پر زور دیا جائے گا اور ان پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق تمام وفاقی وزارتوں اور اداروں کے لیے نئی گاڑیوں کی خریداری پر مکمل پابندی عائد کی جائے گی۔ ساتھ ہی وزارتوں کو ہدایت دی جائے گی کہ وہ بجلی اور گیس کے اخراجات میں نمایاں کمی لائیں۔
عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے غیر ضروری ضمنی گرانٹس پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور صرف قدرتی آفات یا ہنگامی حالات میں ہی کسی بھی قسم کی اضافی مالی گرانٹ کی اجازت دی جائے گی۔
تخمینے کے مطابق آئندہ بجٹ میں قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کے لیے 8685 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں، جن میں سے 7503 ارب روپے ملکی قرضوں کی سروسنگ جبکہ 1119 ارب روپے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے رکھے جائیں گے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے سبسڈی کے لیے 1367 ارب روپے اور مختلف مد میں گرانٹس کے لیے 1619 ارب روپے مختص کیے جانے کی توقع ہے۔
آئندہ مالی سال کے دوران بجٹ خسارہ 6632 ارب روپے تک پہنچنے کا امکان ہے جبکہ وفاقی حکومت کا اندازہ ہے کہ صوبوں سے 1220 ارب روپے کا سرپلس حاصل ہوگا، جو اس خسارے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔
مزید برآں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 716 ارب روپے مختص کیے جانے کی تجویز ہے، اور اس کے تحت سہ ماہی مالی امداد کی رقم کو جنوری 2026 تک 13500 روپے سے بڑھا کر 14500 روپے کیے جانے کا امکان ہے۔