پوری دنیا کورونا وائرس کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہے۔ دنیا کی معیشت زمین بوس ہوچکی ہے۔ لوگوں میں خوف و ہراس ہے کہ آگے کی زندگی کیسے گزاری جائے۔
کورونا وائرس انسان کا تخلیق کردہ ہے۔ جن لوگوں نے وائرس بنایا، ان کے اپنے مقاصد ہوں گے، اب یہ ان کے قابو سے بھی باہر دکھائی دیتا ہے۔
میری رائے میں عالمی اسٹیشبلشمنٹ جس میں 12 یا 13 خاندان شامل ہیں وہ زیادہ تر یہودی لوگ ہیں۔، میڈیا، ٹیکسٹائل، امریکا کے سینٹرل بینک سے لے کر بینک آف انگلینڈ تک معیشت پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔
وائرس کس نے تخلیق کیا ، اس پر آرٹیکلز موجود ہیں۔ بل گیٹس فاؤنڈیشن اور خود عالمی ادارۂ صحت کے افراد کے نام لیے جا رہے ہیں۔ ان کے اپنے مقاصد ہیں جن میں پیسہ بنانا سب سے اہم نظر آتا ہے۔
آج سے تین سال قبل بل گیٹس نے خود بتایا کہ ایک وائرس چین سے آئے گا جس میں 3 یاساڑھے تین کروڑ لوگ مریں گے۔ بارک اوباما نے آج سے پانچ سال قبل کہا کہ ہمیں ایک عالمی وباء کی تیاری کرنی چاہئے جو آنے والی ہے۔
بارک اوباما کے مطابق یہ وبا 1918ء سے تیز ہوگی۔ اس میں بہت سارے لوگ مریں گے اور پوری دنیا اس کی شکار ہوگی۔ انہیں یہ بات کس نے بتائی؟ یہ بہت بڑی سازش ہے۔
مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس تو یہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ آبادی کسی بھی طریقے سے کم ہونی چاہئے۔ میری رائے میں بل گیٹس کے اندر ایک شیطان چھپا ہوا ہے۔ وہ پوری دنیا کو فتح کرنا چاہتا ہے۔
دوسری جانب بل گیٹس فاؤنڈیشن کو کورونا وائرس کی ویکسینیشن کا کنٹریکٹ دے دیا گیا ہے۔ دو ہفتے پہلے بل گیٹس نے کہا کہ یہ وباء اس وقت تک نہیں جائے گی جب تک دنیا کے ہر شخص کی ویکسینیشن نہ ہو۔
اس کا مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ ویکسینیشن سے پیسے کمائے جائیں گے۔ دوائیں بھی یہودی کمپنیاں بنائیں گی جنہیں تمام کنٹریکٹ دئیے جائیں گے۔ ان کے علاوہ کوئی اور یہ نہیں کر پائے گا۔
میری رائے میں ویکسینیشن ان کے پاس پہلے ہی موجود ہے لیکن وہ دی اس وقت جائے گی جب دنیا کا ہر بندہ ان کے آگے ویکسینیشن کیلئے ہاتھ جوڑنے پر مجبور ہوجائے۔
یہ لوگ جس قسم کا خوف پھیلا رہے ہیں، اس سے ان کے عزائم واضح ہیں۔ یہ لوگ معاشی سرگرمیوں کو مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کرنا چاہتے ہیں۔ سویڈن دنیا کا سب سے پہلا ملک بنے گا جہاں کوئی نوٹ نہیں چلے گا۔
سویڈن میں 95 فیصد لین دین ڈیجیٹل ہوچکی ہے۔ امریکا میں بھی یہ کام جاری ہے۔ ویکسینیشن بھی ان لوگوں کو دی جائے گی جنہیں چپ لگی ہوگی۔
سماجی فاصلے کی شرط قابلِ غور ہے۔ دو انسانوں کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ اس لیے ہے تاکہ چہرہ پہچاننے والی تکنیک کے ذریعے شناخت کو بھی ڈیجیٹلائز کیا جائے۔ یہ بہت بڑا کھیل ہے۔
ہمارے دین کے مطابق دجال کی آمد سے قبل اس کے لیے میدان سجایا جائے گا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہی ہورہا ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ دجال کے پاس کسی کو بھی مارنے کی قوت ہوگی۔ خوراک دینے یا نہ دینے کی طاقت ہوگی۔
آج جی ایم او (جینیٹیکلی ماڈیفائیڈ آرگنازم) فوڈ کی ترویج جاری ہے جس کا معاہدہ یہودیوں کے پاس ہے۔ اسے کوئی اور نہیں بیچ سکتا۔ اگر وہ آپ اپنی زمین پر اگا لیں تو ہر بار آپ کو وہی بیج خریدنا پڑے گا۔
جب آپ وہی بیج خریدنے کے محتاج ہوجائیں گے تو آپ کو وہ بیج خریدنے والے کی مرضی کی شرائط پر خریدنا پڑے گا۔ اگر آپ شرائط تسلیم نہیں کریں گے تو آپ کی زمین بنجر ہوجائے گی۔ اس پر کوئی اور بیج پیداوار نہیں دے سکے گا۔
نواز شریف کی حکومت میں یہ بل پاس کردیا گیا جس سے پاکستان میں بھی بدقسمتی سے جی ایم او کے بیج آچکے ہیں جو اگائے جا رہے ہیں۔ اس سے پیداوار بڑھتی ہے لیکن اس کے آفٹر افیکٹس انتہائی خطرناک ہیں۔
فطری بیج اور انسانی تخلیق کردہ بیج میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ایسے بیجوں کے استعمال سے یہودیوں کی کیڑے مار ادویات کی خریدوفروخت پر بھی مثبت اثرات پڑیں گے لیکن ہمارا نقصان ہوگا۔
خوف کی ایک فضا قائم کردی گئی ہے جو ایک بڑی سازش ہے۔ ہمیں یہودیوں کا محتاج بنایا جارہا ہے۔ ہمارے اراکینِ اسمبلی اور حکمران بکاؤ مال ہیں۔ ان کو پیسے ملے تو انہوں نے جی ایم او کی اجازت دے دی۔
بھارت میں 70 فیصد سے زائد زمین جی ایم او کا شکار ہوچکی ہے جبکہ اپنے ممالک میں یہودی طبقہ اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ آرگینک یعنی قدرتی بیجوں کو فروغ دینا چاہتی ہے۔
ہم عیاشیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں نوٹ گننے سے ہی فرصت نہیں۔ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ جی ایم او سے عوام کو کیا نقصان پہنچے گا۔ آج بھی میں حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ خدا کا واسطہ ہے کہ جی ایم او کی ترویج بند کی جائے۔
پاکستان پہلے ہی معاشی طور پر بدحال ہے۔ جی ایم او ہماری زراعت کو بھی تباہ کردے گا۔ کورونا وائرس فلو کی ایک اعلیٰ قسم ہے۔ یہ چھوت کی بیماری نہیں، جسے دوسرے کو لگنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی آنکھیں کھولیں۔ دین کو سمجھتے ہوئے کورونا وائرس کے جال کو توڑنے کی کوشش کریں۔ آج بھی اگر ہم سیدھے ہوجائیں تو اسے کنٹرول کرسکتے ہیں۔
وطنِ عزیز کی اتنی بڑی معیشت نہیں تھی۔ ہماری 390 ارب ڈالر کی کنزیومر جی ڈی پی مارکیٹ ہے جسے عالمی برادری میں زیادہ بڑی معیشت نہیں کہاجاسکتا۔
پاکستان کی ایکسپورٹس ساڑھے 22 یا 23 بلین ڈالر ہیں جو موجودہ دور میں کچھ بڑھ گئی ہیں۔ ہماری ایکسپورٹس پیپلز پارٹی کے دورمیں 25.72 بلین تھیں ۔نواز شریف گئے تو ایکسپورٹس 19.60 رہ گئی تھیں۔
ملک میں کسی شعبے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ زراعت کو ترویج دی جاسکتی تھی لیکن اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔ سن 1984 میں کپاس کی ساڑھے 14 کروڑ گانٹھیں آئی تھیں جس کے بعد آج تک 13 کروڑ بھی نہ لی جاسکیں۔
ضیاء الحق کو معلوم تھا کہ کاٹن کی فصلیں بڑھانے سے ملک کہاں جاسکتا ہے۔ جمہوری حکومتوں نے شوگر ملیں ان جگہوں پر لگائیں جہاں کپاس کی فصلیں ہوتی تھیں۔ لوگ گنے کی فصل کے پیچھے لگ گئے۔ کپاس پیچھے رہ گئی۔
پاکستان میں چھ سے آٹھ خاندانون کی وجہ سے چینی کو فروغ دیا گیا جبکہ پاکستان کو میری رائے میں گنے کی بجائے گندم اور کپاس کو ترجیح دینی چاہئے جبکہ تعمیراتی شعبے میں وزیرِ اعظم عمران خان کا اقدام قابلِ تعریف ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم تعمیراتی شعبے سے نہیں پوچھیں گے کہ پیسہ کہاں سے آیا، اگر وہ پیسہ لگائیں۔ اس سے جابز پیدا ہوں گی۔ عمران خان کو چاہئے کہ تمام صنعتوں سے پیسے کا نہ پوچھیں۔
لوگ پاکستان میں انڈسٹری لگانا شروع کردیں گے۔ زراعت کے شعبے کو جنگی بنیادوں پر ترویج دی جائے گی۔ سرمایہ کاری کو ترجیح دینا ضروری ہے۔ بیرونِ ملک سے آئے ہوئے سرمایہ کاروں کو بھی فروغ دیا جائے۔
ملک کے کسی بھی نظام کی بات کی جائے، جب تک اسے تبدیل نہ کیا جائے، پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ وزیر، مشیر اور صوبائی و وفاقی نظام کی جگہ صدارتی نظام آنا چاہئے۔
فلپائن میں 9 کروڑ کی آبادی اور 73 صوبے موجود ہیں۔ وہاں گورنر اور میئر موجود ہیں جن کے پاس سارے اختیارات ہوتے ہیں۔ ہمارے میئر کو کونسلر بناتا ہے۔ شہر کے اختیارات میئر کے پاس ہونے چاہئیں۔
اختیارات نیچے تک منتقل ہونے چاہئیں۔ اختیارات کی تقسیم کے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ہمارے ہاں کردار سازی نہیں ہو رہی۔ ہمارے ہاں رٹے کا نظام نافذ ہے جس کا ازالہ ضروری ہے۔
اگر ہم تعلیمی نظام کی بات کریں تو جاپان میں کردار سازی پر توجہ دی جاتی ہے۔ بچوں سے اسکول صاف کرایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اسی قسم کا تعلیمی نظام ضروری ہے۔
جب تک نظام تبدیل نہیں ہوگا۔ پاکستان ترقی نہیں کر پائے گا۔ یہاں بدعنوانی بہت زیادہ ہے۔ ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے۔ اختیارات کی منتقلی ضروری ہے۔