نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے ملک بھر کی ہائی ویز اور موٹر ویز پر ٹول ٹیکس میں ایک بار پھر اضافہ کر دیا ہے جو گزشتہ تین ماہ کے دوران دوسرا اضافہ ہے۔
نئے نرخ یکم اپریل 2025 سے نافذ ہوں گے جس کے بعد روزانہ سفر کرنے والے مسافروں اور ٹرانسپورٹرز پر اضافی مالی بوجھ پڑے گا۔
نظرثانی شدہ ٹول ٹیکس مختلف اقسام کی گاڑیوں پر لاگو ہوں گے جن میں کاریں، وینز، بسیں اور ٹرک شامل ہیں۔
نجی گاڑیوں کے کرایوں میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ چھوٹی مسافر گاڑیوں کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ بڑی کمرشل گاڑیاں جیسے بسیں اور ہیوی ٹرک زیادہ ٹیکس ادا کریں گے جس سے ٹرانسپورٹ لاگت میں مزید اضافہ ہوگا۔
یہ اضافہ پاکستان کی اہم شاہراہوں اور موٹر ویز پر لاگو ہوگا، جن میں ایم ون (پشاور-اسلام آباد)، ایم تھری (لاہور-عبدالحکیم)، ایم فور (فیصل آباد-ملتان)، ایم فائیو (ملتان-سکھر)، ایم فورٹین (ہکلہ-ڈی آئی خان) اور ای 35 (ہزارہ ایکسپریس وے) شامل ہیں۔
ٹرانسپورٹرز نے بڑھتے ہوئے کرایوں، مہنگے ایندھن اور افراطِ زر کے باعث مال برداری کے اخراجات میں اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
عام مسافر بھی اپنی روزانہ کی سفری لاگت میں اضافے کے حوالے سے فکرمند ہیں کیونکہ ان کے لیے سفر مزید مہنگا ہو جائے گا۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا مؤقف ہے کہ ٹول ٹیکس میں اضافے کا مقصد سڑکوں کی مرمت اور بہتری کے لیے مالی وسائل فراہم کرنا ہے تاکہ سفر کو زیادہ محفوظ اور آرام دہ بنایا جا سکے۔
عوامی حلقوں میں اس اضافے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اس اضافی ریونیو کے شفاف استعمال کے بارے میں واضح معلومات فراہم نہیں کی جا رہیں۔
ٹرانسپورٹ لاگت میں اضافے کے نتیجے میں ٹرک ڈرائیورز اور لاجسٹکس کمپنیاں خدشہ ظاہر کر رہی ہیں کہ یہ بوجھ بالآخر عام صارفین پر پڑے گا کیونکہ بنیادی اشیاء کی قیمتیں مزید بڑھنے کا امکان ہے۔
کم اور متوسط طبقے کے مسافر بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ طویل فاصلے کے سفر کو مزید مہنگا اور ناقابلِ برداشت نہ بنایا جائے۔
اگرچہ اتھارٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ ٹول ٹیکس اضافہ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے لیکن عوامی ردعمل اس کے برعکس نظر آ رہا ہے۔
شہریوں کا مطالبہ ہے کہ ٹول ٹیکس میں اضافے کو منصفانہ حد تک رکھا جائے اور اس سے حاصل ہونے والے فنڈز کے استعمال میں شفافیت یقینی بنائی جائے۔