بھارت میں سلمان رشدی کی متنازع کتاب “دی سیٹینک ورسز” (شیطانی آیات) پر تین دہائیوں سے عائد پابندی کے خاتمے کے بعد مسلم امہ میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
دہلی ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ حکومت اس پابندی کو نافذ کرنے کے اصل نوٹیفکیشن کو پیش نہیں کر سکی جو پہلی بار 1988 میں اس وقت لگائی گئی تھی جب مسلمانوں نے کتاب کو گستاخانہ قرار دیا تھا۔
یہ فیصلہ 5 نومبر کو ایک 2019 کی درخواست کے تناظر میں آیا جس میں امپورٹ پر پابندی کو چیلنج کیا گیا تھا۔ عدالت کے مطابق حکومت نے بتایا کہ پابندی کا اصل حکم نامہ “ناقابل تلاش” ہے، جس پر عدالت نے نتیجہ اخذ کیا کہ “ایسا نوٹیفکیشن موجود نہیں ہے۔
” درخواست گزار سندیپن خان کے وکیل اودھیام مکھرجی نے تصدیق کی کہ پابندی مؤثر طور پر ختم ہو گئی ہے، انہوں نے کہا، “5 نومبر سے پابندی ختم ہو گئی ہے کیونکہ کوئی نوٹیفکیشن موجود نہیں۔”
سندیپن خان نے یہ درخواست اس وقت دائر کی جب انہیں معلوم ہوا کہ بھارت میں کتابوں کی دکانیں “دی سیٹینک ورسز” فروخت یا امپورٹ نہیں کر سکتیں اور حکومت کی ویب سائٹس پر پابندی کا کوئی ریکارڈ بھی دستیاب نہیں تھا۔
حتیٰ کہ عدالت میں بھی حکومت اصل حکم نامہ پیش کرنے میں ناکام رہی۔ 5 نومبر کے فیصلے میں کہا گیا کہ “کسی بھی مدعا علیہ نے مذکورہ نوٹیفکیشن پیش نہیں کیا، نوٹیفکیشن کا مبینہ مصنف، جو ایک کسٹمز اہلکار تھا، بھی اس کی نقل فراہم کرنے میں بے بس دکھائی دیا۔”
سلمان رشدی کی کتاب ستمبر 1988 میں شائع ہونے کے بعد دنیا بھر میں تنازعے کا باعث بنی، جس میں مسلمانوں کی جانب سے پیغمبر محمد ﷺ کے متعلق بعض اقتباسات کو گستاخانہ قرار دیا گیا۔
اس کے نتیجے میں پرتشدد احتجاج، کتاب کے جلانے اور متعدد ممالک بشمول بھارت میں اس پر پابندی لگانے کی آوازیں بلند ہوئیں۔ 1989 میں ایران کے اُس وقت کے سپریم لیڈرآیت اللہ روح اللہ خمینی نے سلمان رشدی کے قتل کے لئے فتویٰ جاری کیا، جس کے بعد سلمان رشدی کو تقریباً چھ سال تک چھپ کر زندگی گزارنی پڑی۔
فتویٰ کے تین دہائیوں بعد اگست 2022 میں سلمان رشدی پر نیویارک میں ایک لیکچر کے دوران حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں ان کی ایک آنکھ کی بینائی ضائع ہو گئی اور ان کے ایک ہاتھ کی حرکت بھی متاثر ہوئی۔