دورہ قرآن مجید کا خاکہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Outline of Quran Recitation (Dora-e-Quran)

ہم نے ایک بار علماء کی مجلس میں اس بات کا ذکر کیا کہ دورہ حدیث کی طرح دورہ قرآن مجید کی کوئی کلاس مدارس میں نہیں ہے جو افسوسناک بات ہے۔ اس پر ایک مولوی صاحب نے فرمایا

“دورہ حدیث میں تو صحاح ستہ ہوتی ہیں۔ سب الگ الگ کتب ہیں۔ ایک قرآن مجید چھ پیریڈز میں کیسے پڑھایا جائے گا ؟ چھ الگ الگ استاد آکر مختلف پاروں کی تفسیر پڑھائیں گے ؟ یہ تو عجیب سی بات ہوگی”

اس بات سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہمارے ہاں قرآن مجید سے متعلق خود علماء کے حلقے میں ہی کس درجہ سطحیت پائی جاتی ہے۔ اور یہ سطحیت قرآن مجید کو نظر انداز کرنے کا ہی نتیجہ ہے۔

ہم نہ تو کبھی کسی وفاق المدارس کے رکن رہے ہیں اور نہ ہی کوئی ماہر تعلیم ہیں۔ پھر بھی ایک خاکے کی صورت دکھا سکتے ہیں کہ اگر دورہ قرآن مجید کی کلاس قائم کی جائے تو اس کی ممکنہ صورت کیا ہوسکتی ہے۔

پہلا پیریڈ: تاریخ نزول قرآن
اس پیریڈ میں ان تمام آیات پر فوکس رکھا جاسکتا ہے جن کے شانِ نزول ہیں۔ شان نزول کوئی مذاق نہیں، بعض آیات بہت اہم مواقع اور خاص قسم کے واقعاتی پس منظر میں نازل ہوئی ہیں۔ پھر شان نزول میں کئی جگہ اختلاف بھی ہے۔ ان اختلافی روایات کا تفصیل سے جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ اور اس ضمن میں استاد مختلف مفسرین کی آراء کی روشنی میں صورتحال کو واضح کرسکتا ہے۔

اس پیریڈ میں بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی فوکس میں آئیں گے جن کی منشاء کے مطابق بعض مفسرین کے مطابق 22 احکام نازل ہوئے ہیں۔ ان تمام آیات میں محض شان نزول بیان نہیں کرنے بلکہ اس پورے کیس کو فوکس کیا جائے جو کسی آیت کے نزول کا باعث بنا۔ اور اسے پوری طرح کھول کر سمجھایا جائے۔

دوسرا پیریڈ: اعجاز القرآن
اس پیریڈ کے لئے تو استاد ہی ایسا درکار ہوگا جو عربی ادب اور علم معانی وغیرہ کا ماسٹر ہو۔ اس پیریڈ والے استاد کا ہدف یہ نہیں ہوگا کہ قرآن مجید کہہ کیا رہا ہے۔ یعنی اس کا کام تفسیر بیان کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا ہو کہ “قرآن کہہ کیسے رہا ہے” یعنی اس کا اعجاز وضح کرنا ہے۔ اور طلبہ کو سمجھانا ہے کہ جب قرآن کہتا ہے کہ میری جیسی ایک آیت بنا کر دکھاؤ تو اس سے کیا مراد ہے ؟ وہ خوبیاں ہیں کیا جن کی نقالی بھی انسان کے بس سے باہر ہے۔

اب یہ اعجاز چونکہ ہر چند قدم بعد نئے رنگ سے سامنے آتا ہے تو اسے آیات کے اعجازی تجزیے کی صورت کھولا جاسکتا ہے۔ اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ اگر کسی سے کہا جائے کہ بتایئے اعجاز قرآن ہے کیا ؟ تو وہ نہیں بتا سکتا۔

تیسرا پیریڈ: قصص القرآن
اس پیریڈ میں دو طرح کی آیات کو جمع کرکے انہیں نصابی شکل دی جاسکتی ہے۔ پہلی وہ آیات جو تاریخی واقعات سے متعلق ہیں۔ یعنی انبیاء اور پچھلی اقوام کے واقعات۔ دوسری وہ آیات جن میں اللہ سبحانہ و تعالی حکایت کے رنگ میں مثالیں دیتے ہیں۔

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ قرآن کہانیاں بیان کرنے والی کتاب نہیں ہے۔ جو واقعات اللہ سبحانہ و تعالی نے بیان فرما رکھے ہیں ان کے پیچھے حکمت اور تعلیم کا ایک بہت بڑا خزانہ پوشیدہ ہے۔ یہ ہم کمبخت ہیں جو بس کہانی کی طرح پڑھ کر گزر جاتے ہیں۔

مثلا آپ حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ ہی دیکھ لیجئے۔ یہ قصہ انسانی نفسیات کی ایسی ایسی پرتیں کھولتا ہے کہ آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ واللہ العظیم جس دن آپ یا اسفا علی یوسف کے پیچھے کھڑی نفسیات تک پہنچ گئے آپ دھاڑیں مار مار کر روپڑیں گے۔ بعینہ حضرت موسی علیہ السلام کا معاملہ دیکھ لیجئے۔

رعایت اللہ فاروقی کے دیگر کالم پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

کیا یہ سوال کوئی معنی نہیں رکھتا کہ اللہ سبحانہ و تعالی اپنے اس برگزیدہ پیغمبر کا ذکر سب سے زیادہ کیوں فرما رہے ہیں ؟ اور پیغمبر بھی ایسا جو انبیاء کی عمومی نفسیات سے بالکل ہٹ کر ایک منفرد نفسیات والا واحد پیغمبر ہے۔ اللہ کے پیغمبروں کا جب آپ جائزہ لیں گے تو جو چیز آپ کو سب سے پہلے متوجہ کرے گی وہ یہ کہ سب انتہائی نرم مزاج، انتہائی متحمل، انتہائی عجز و انکسار والے ہیں۔ لیکن حضرت موسی علیہ السلام ان سے بالکل ہی مختلف ہیں۔ غصیلے ایسے کہ بندہ مار دیا۔ جلد باز ایسے کہ حضرت خضر علیہ السلام کو کہنا پڑگیا

“میں نے کہا تھا ناں تم سے صبر نہ ہوگا”
اس بے مثل و منفرد پیغمبر سے متعلقہ آیات بہت خاص توجہ کی متقاضی ہیں۔ غرضیکہ قصص القرآن کے اس پیریڈ کے استاد نے قصے نہیں سنانے۔ ان آیات کو کھولنا ہے۔ اور وہ بھی علم نفسیات کی روشنی میں۔ جب انہیں علم نفسیات کی روشنی میں کھولا جائے گا تو یہیں سے واضح ہوجائے گا کہ داعی کا طریق کیا ہونا چاہئے ۔ اور دعوت دین کے کام کو نفسیاتی اصولوں پر کیسے استوار کیا جاسکتا ہے۔ تفصیل کا موقع نہیں اشارتا عرض کر دیتے ہیں کہ حضرت تھانوی کا سارا کام نفسیات پر بیسڈ ہے۔ اور پوری دیوبندی تاریخ میں یہ صرف انہی کا امتیاز ہے۔

چوتھا پیریڈ: احکام القرآن
اس پیریڈ میں موضوع قرآن مجید کی وہ آیات ہوں جن میں احکام یعنی قوانین نازل ہوئے ہیں۔ ان قوانین کو فقہاء کے دلائل کی روشنی میں کھولا جائے۔ اور بالخصوص جدید دور کے اعتراضات کے جوابات واضح کئے جائیں۔ یہ بہت ہی شرمناک بات ہے کہ ہمارے علماء کی غالب اکثریت ان اعتراضات کا جواب نہیں دے پاتی۔ ان بیچاروں کا کیا قصور ؟ انہیں کسی نے پڑھایا ہی کب ہے ؟

پانچواں پیریڈ: الاتقان فی علوم القرآن
یہ امام سیوطی کی شہرہ آفاق کتاب ہے۔ ہمارے برصغیر میں چونکہ قرآن ہی نظر انداز ہے سو سیوطی کی اس کتاب کو کوئی کیوں پڑھے ؟ یہ کتاب تفسیر نہیں ہے۔ یہ بنیادی طور پر قرآن کے متعلقات کا احاطہ کرتی ہے۔ مثلا مفسرین تو آیات کی تفسیر بیان کرتے ہیں۔ یہ امام سیوطی ہیں جو آپ کو اپنی اس کتاب میں یہ بتاتے ہیں کہ قرآن مجید کی آیت کو اس کے محل سے ہٹ کر چسپاں کرنا حرام ہے۔ یعنی یہ جو مولویوں نے مذاق بنا رکھا ہے کہ محض ظاہری ترجمہ دیکھ کر آیت کہیں بھی چپکا دی یہ سنگین جرم ہے۔

اسی طرح قرآن مجید کےرسم الخط ، لغات سمیت ہر ہر چیز کا سیوطی نے اپنی اس کتاب میں احاطہ کر رکھا ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ یہ کتاب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ قرآن مجید ہے کیا ؟ اور اس کے ساتھ ہم نے معاملہ کس طرح رکھنا ہے۔ قدرے ضخیم ہے سو اسے عبارتا پڑھانے کی ضرورت نہیں۔ استاد اس سے لیکچرز تخلیق کرکے بیان کرےاور شاگردوں کو بس اتنا بتاتا جائے کہ یہ لیکچر الاتقان کے فلاں صفحے سے فلاں صفحے تک سے ماخوذ ہے۔ ان صفحات کا مطالعہ کرلیا جائے۔

چھٹا پیریڈ: تاریخ تفسیر
یہ بہت ہی اہم پیریڈ ہوسکتا ہے۔ اس میں تفسیر کی تاریخ بیان کی جائے جو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے شروع کرکے عہد حاضر کے مفسرین تک لائی جاسکتی ہے۔ مختلف تفاسیر کے ادوار، ان کے امتیازات، ان کے سقم سمیت ہر چیز کو تاریخی نقطہ نظر سے واضح کیا جائے

لیجئے صاحب چھ پیریڈ تیار ہوگئے
ہمیں یہ اصرار بالکل نہیں کہ آپ ہمارا کہا ہی قبول کرلیں۔ آپ بس یہ سمجھ لیجئے کہ ہم نے آپ کو راستہ بتا دیا ہے۔ آپ اس راستے پر چل کر ہم سے بہتر خاکہ بنا کر عمل شروع کردیجئےہم آپ کے پیر دھو دھو کر پئیں گے۔ مگر شروع تو کیجئے !

Related Posts