ہمارا معاشرہ خواتین بائیکرز کو قبول نہیں کرتا، مرینا سید

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Our society doesn’t welcome a female biker: Marina Syed

سیاست ہو یا معیشت، کھیل ہو یا کوئی بھی پیشہ پاکستانی خواتین نے خود کو ہر شعبے میں منوایا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستانی خواتین کسی بھی صورت مردوں سے کم نہیں ہیں۔

آج زندگی کے تقریباً ہر شعبہ میں خواتین کی موجودگی کے باوجود آج بھی گاڑی چلانے والی خواتین کی ڈرائیونگ کو قبول نہیں کیا جاتا ایسے میں ہمارے معاشرے میں خواتین کے موٹرسائیکل چلانے کو بالکل ناقابل قبول سمجھتا جاتا ہے۔

پاکستان میں بیشمار چیلنجز اورسڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک اور مشکلات کے باوجود کچھ خواتین نے خود کو بائیکرز کے طور پر منواکر اپنی دھاک بٹھا دی ہے۔

پاکستان میں نامور بائیکرز میں سے ایک نام ہے مرینا سید، راؤڈی رائیڈز تنظیم کی روح رواں مرینہ سید ناصرف خود بائیک چلاتی ہیں بلکہ ایک اکیڈمی بھی چلاتی ہیں جہاں وہ دوسری لڑکیوں کو موٹر سائیکل چلانے کی تربیت دیتی ہیں۔

مرینا سید آئندہ ماہ ریلیز ہونیوالی فلم شنوگئی میں بھی جلوہ گر ہونگی جس میں موٹر وے پر ہونیوالے عصمت دری کے حالیہ واقعے کو اجاگر کیا گیا ہے۔

ایم ایم نیوز: آپ نے پاکستان جیسے ملک میں موٹرسائیکل چلانے کا فیصلہ کیوں کیا؟
مرینا سید: جب میں یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتی تھی تو اس وقت میں نے انٹرن شپ بھی شروع کی تھی اور جس جگہ میں کام کرتی تھی وہ میرے گھر سے بہت دور تھا اور جب میں کام سے فارغ ہوتی تو رات گیارہ بجے تک کوئی ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ اگر مجھے رکشہ مل جاتا تو ڈرائیور زیادہ کرایہ مانگتااور اگر بس میں سفر کرتی تو اس میں کافی وقت لگتا تھا اور اس وقت مجھے احساس ہوا کہ مجھے اپنی موٹر سائیکل خریدنے کی ضرورت ہے۔

ایم ایم نیوز:بائیکر کے طور پرآپ کو کن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا؟
مرینا سید: جب میں نے موٹرسائیکل چلانے کا فیصلہ کیا تو سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ مجھے خود ہی سیکھنا پڑا، اس لئے میں نے پیسہ بچایا اور پہلے اسکوٹی خریدی۔ تب میں نے اپنے آس پاس کے لوگوں سے سیکھنا شروع کیا۔

میں رات کے وقت پریکٹس کرتی تھی ، میں کئی بار گر ی اور زخمی ہوئی لیکن کبھی بھی مشق نہیں چھوڑی۔ جب میرے والدین کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے ڈانٹ ڈپٹ کی ،مجھے سپورٹ نہیں کیا ، یہاں تک کہ میری اسکوٹی زبردستی فروخت کردی گئی لیکن میں نے پھر اس شخص سے واپس خریدا جو میری اسکوٹی لے گیا تھا۔

ایم ایم نیوز: ایک خاتون بائیکر کی حیثیت سے اب تک کا سب سے برا واقعہ کونسا تھا؟
مرینا سید: میں ایک بار ٹورپر گئی اور موٹرسائیکل چلا رہی تھی کہ دو کاریں آئیں اور ڈرائیوروں نے مجھے اس طرح سے گھمانے کی کوشش کرتے ہوئے مجھے ہراساں کیا کہ اگر میں رک جاتی تو میں شدید زخمی ہوسکتی تھی ۔میں دو دن تک سواری نہیں کرسکتی تھی لیکن آپ اپنی غلطی سے سیکھتے ہیں۔

ایم ایم نیوز: آپ نے ’راؤڈی رائیڈرز‘ کیسے شروع کی؟ اس کے پیچھے کیا وجہ تھی؟
مرینا سید: میں نے اپنے تین دوستوں کے ساتھ مل کرراؤڈی رائیڈرز کا آغاز کیا۔ اس کے پیچھے کی وجہ یہ تھی کہ میں نے کسی پیشہ ور انسٹیٹیوٹ سے موٹرسائیکل چلانانہیں سیکھا کیونکہ لڑکیوں کو موٹرسائیکل چلانے کا طریقہ سکھانے کے لئے کوئی اکیڈمی نہیں تھی۔

راؤڈی رائیڈرز میراذاتی خیال تھا اور میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ اس کی شروعات کی لیکن انہوں نے بعد میں مجھے چھوڑ دیا لہٰذا میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ وہ کلاس کے دوران میری مدد کرے اور وہ راضی ہوگیا۔ ایک فرم نے میرے خیال کی سرپرستی کی اور اکیڈمی کی تعمیر میں میری مدد کی۔ اب میں ہفتہ وار بنیاد پر لڑکیوں کو سکھاتی ہوں اور ہفتہ کے آخر پر کام کرنے والی خواتین کو بھی سکھاتی ہوں۔

ایم ایم نیوز:کیا آپ کو لگتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں لڑکیوں کوپبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا چاہیے ؟
مرینا سید: بالکل نہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر بہت طویل ہوتا ہے اورایسے امکانات موجود ہیں کہ آپ کو تنگ کیا جاسکتا ہے یا لوٹ مار ہوسکتی ہے جیسے چنگ چی اور بسیں آپ کو گھر پر نہیں چھوڑتی ہیں ، آپ کو بس پوائنٹ پر چھوڑ دیا جاتا ہے لیکن آپ خود ہی موٹرسائیکل چلائیں تو بہتر ہے کہ کنٹرول آپ کے ہاتھ میں ہے۔

ایم ایم نیوز:آپ کے پاس بائیک سیکھنے کیلئے آنیوالی لڑکیوں کو کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
مرینا سید: میں نے جن لڑکیوں کی تربیت کی ان میں سےایک لڑکی کےچچا اور خالہ نے اس لڑکی اور اسکے اہل خانہ کو موٹرسائیکل چلانے پردھمکی دی ، اس لڑکی نے انکشاف کیا کہ اگر اس نے رائیڈنگ جاری رکھی تو اسے گھر سے نکال دیا جائے گا۔

میں نے اس کے گھر والوں سے کہا کہ وہ لڑکی کو بنیادی پک اینڈ ڈراپ یا کار یا جیب خرچ فراہم کریں تاکہ وہ کوئی متبادل تلاش کرسکے لیکن اس پربھی انکار کر دیا گیاکیوں کہ اس کے رشتہ داروں کا خیال تھا کہ وہ خاندان کی دوسری لڑکیوں کو گمراہ کررہی ہے۔

ایم ایم نیوز: آپ اپنی آنے والی پہلی فلم میں کیا کردار ادا کررہی ہیں؟
مرینا سید: میں فلم شنوگئی میں مرکزی کردار ادا کررہی ہوں،شنوگئی پشتوزبان کا لفظ ہے جس کا مطلب سبز آنکھوں والی لڑکی ہے۔

میں ایک کھلے ذہن والی لڑکی کا کردار اداکررہی ہوں جو موٹر سائیکل پر سفر کرنا پسند کرتی ہے۔ یہ فلم موٹروے زیادتی کیس سے متاثر ہوکر بنائی گئی ہے جس میں متاثرہ خاتون کو ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔

ایم ایم نیوز:خواتین بائیک رائیڈرز کو معاشرہ کیوں قبول نہیں کرتا ؟
مرینا سید: بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ خواتین بائیکر ز کو قبول نہیں کرتا،ہم نے اپنی سوچ بنالی ہے کہ خواتین بائیک نہیں چلاسکتیں یا اس میں بے حیائی کا عنصر نکال لیا جاتا ہے حالانکہ میں نے ایک لڑکی کو تربیت دی جو خود کو ڈھانپ کر رکھتی تھی میں اسے صرف اس کی رنگین آنکھوں سے پہچان سکتی تھی۔ یہاں تک کہ جب وہ موٹرسائیکل چلاتی تھی تو لوگ طرح طرح کے جملے کستے تھے جس کی وجہ سے اس نے بائیک چلانا چھوڑ دی۔

ایم ایم نیوز: کیا آپ نے کبھی خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے ریلی نکالی ؟
مرینا سید: ہاں، میرا مقصد خواتین کو بااختیار بنانا ہے اور یہ پیغام ہے کہ خواتین موٹر سائیکل پر بھی سواری کرسکتی ہیں۔ اگلے ماہ ہم کراچی سے گوادر تک ریلی نکالیں گے ، جہاں لڑکیاں موٹرسائیکل چلائیں گی۔ ریلی بلا معاوضہ ہوگی اور خواتین اپنے خاندان کے افراد کو بھی لا سکتی ہیں۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے ایسی دوستانہ ریلی کا آغاز کیا گیا ہے۔

ایم ایم نیوز:موٹرسائیکل چلانے کی شوقین خواتین کو شروعات کیلئے کیا مشورہ دیں گی؟
مرینا سید: سب سے پہلے سفر شروع کرنے سے قبل بائیک کاپیٹرول چیک کریں۔ہیلمٹ ہمیشہ پہنیں۔اگر آپ سیکھ رہے ہیں تو اسکوٹی سے شروع کریں بعد میں بائک پر جائیں،ڈرائیونگ کے دوران ہمیشہ ان لوگوں کو نظرانداز کریں جو طنز کرتے ہیں اور آپ کو پریشان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔موٹر سائیکل کی رفتار ہمیشہ اپنے کنٹرول میں رکھیں۔

Related Posts