اسلام آباد: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان (TIP) نے وزیراعلیٰ سندھ سے اس شکایت کے ساتھ رابطہ کیا ہے کہ صوبائی محکمہ تعلیم نے مبینہ طور پر 320 فیصد زیادہ قیمت پر سرکاری اسکولز کے لیے ڈیسک خریدے ہیں جس سے حکومتی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔
ایک ڈبل ڈیسک ایک میز پر مشتمل ہوتا ہے جو اپنی کرسی اور بینچ سے منسلک ہوتا ہے، جسے عمومی طور پر ڈوئل ڈیسک کہا جاتا ہے۔
پیر کو سید مراد علی شاہ کو لکھے گئے اپنے خط میں ٹی آئی پی نے کہا ہے کہ صوبائی اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈیپارٹمنٹ (SELD) نے 10 جون 2021 کو “ڈوئل ڈیسک” کی فراہمی اور ترسیل کے لیے چار ٹھیکے دیئے تھے جن کی مالیت 5 ارب روپے بنتی ہے۔ ایک ڈوئل ڈیسک کی قیمت 23 ہزار 985 سے لے کر 29 ہزار 500 روپے تمام ٹیکسز سمیت بنتی ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے اپنے خط میں انکشاف کیا ہے کہ ٹینڈرز کے لیے مختلف کمپنیوں کی جانب سے بولی دی گئی تھی جس میں سب سے کم بولی کی قیمت 5 ہزار 700 روپے سے لے کر 6 ہزار 860 روپے فی ڈیسک دی گئی تھی جس میں تمام ٹیکسز بھی شامل تھے۔ تاہم اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی ڈیپارٹمنٹ نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر ٹھیکہ منسوخ کردیا تھا۔
ٹی آئی پی نے کہا کہ 5 ہزار 700 روپے اور 23 ہزار 985 فی ڈیسک کے درمیان قیمتوں کے فرق کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ موجودہ ٹینڈرز 320٪ زیادہ قیمتوں پر دیئے گئے ہیں ، جس سے ایک اندازے کے مطابق سرکاری خزانے کو تقریبا 3 ارب 30 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔
ٹی آئی پی نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ متعلقہ محکمے کے افسران اور ٹھیکیداروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جنہوں نے خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔
واضح رہے کہ ٹی آئی پی نے اپریل 2019 میں سیلڈ کی جانب سے سب سے کم بولی لگانے والے کو ٹھیکہ نہ دینے پر احتجاج کیا تھا اور وزیراعلیٰ کو بھی اس کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔
ایک بار پھر ، 23 اگست ، 2019 کو ، ٹی آئی پاکستان نے سیکریٹری تعلیم و خواندگی کو مطلع کیا تھا کہ ٹی آئی پاکستان ٹینڈرنگ کے عمل میں محکمہ کے غیر شفاف طریقوں کی وجہ سے دوبارہ ٹینڈر میں تشخیص کمیٹی میں مبصر کی حیثیت سے حصہ نہیں لے گا۔ جیساکہ پچھلے ٹینڈر کے موقع پر حصہ نہیں لیا تھا۔
ٹی آئی پی نے وزیراعلیٰ سندھ سے درخواست کی کہ وہ الزامات کی جانچ کریں ، اور اگر وہ الزامات درست پائے جاتے ہیں تو ٹھیکے دینے میں سنگین بے ضابطگیوں پر متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں : ڈی آئی جی ٹریفک کا کراچی میں 6 ڈرائیونگ لائسنس برانچز کھولنے کا اعلان