آج جنم دن! محترمہ بینظیر بھٹو کی زندگی پر ایک نظر

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

"On Her Birthday: A Glance at the Life of Benazir Bhutto"
FILE PHOTO

21 جون 1953ء کو لاڑکانہ کے معروف سیاسی خانوادے میں جنم لینے والی محترمہ بے نظیر بھٹو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بنیں۔ بچپن میں انہیں “پنکی” کے نام سے پکارا جاتا تھا، لیکن وقت نے اسی پنکی کو عالمی سیاست کا ایک سنہری باب بنا دیا۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم کراچی کے لیڈی جیننگز نرسری اسکول اور کانوینٹ آف جیزز اینڈ میری سے حاصل کی۔ 1973ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات میں گریجویشن کیا اور بعد ازاں آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ، سیاست اور معاشیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ آکسفورڈ یونین کی صدر بھی منتخب ہوئیں، جو کسی بھی ایشیائی خاتون کے لیے ایک منفرد اعزاز تھا۔

جون 1977ء میں جب وہ وطن واپس آئیں تو ان کا مقصد سفارتی خدمات انجام دینا تھا، مگر اسی دوران ملک میں مارشل لا نافذ ہو گیا۔ والد ذوالفقار علی بھٹو کو قید کیا گیا اور بے نظیر خود بھی نظربند ہو گئیں۔ والد کی پھانسی اور ذاتی صدمات نے ان کے حوصلے کو توڑا نہیں بلکہ سیاست کے میدان میں ان کے سفر کا آغاز کیا۔

1984ء میں رہائی کے بعد انہوں نے دو سال جلاوطنی میں گزارے۔ اس دوران وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھال چکی تھیں۔ 1986ء میں جب وہ وطن واپس آئیں تو لاہور میں ان کا استقبال ایک تاریخ ساز واقعہ بن گیا، جو پاکستانی سیاست کا یادگار لمحہ بن چکا ہے۔

1987ء میں ان کی شادی آصف علی زرداری سے ہوئی۔ ازدواجی زندگی کے ساتھ ساتھ انہوں نے سیاسی جدوجہد بھی جاری رکھی۔ 1988ء میں جنرل ضیاء الحق کی ہلاکت کے بعد انتخابات منعقد ہوئے اور صرف 35 سال کی عمر میں وہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم منتخب ہوئیں۔

ان کی حکومت 1990ء میں کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر برطرف کر دی گئی، لیکن 1993ء میں وہ دوبارہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئیں۔ تاہم 1996ء میں اُس وقت کے صدر فاروق لغاری نے ایک بار پھر ان کی حکومت برطرف کر دی۔

اہم کارنامے اور اقدامات
محترمہ بے نظیر بھٹو کے دو ادوارِ حکومت میں کئی اہم اقدامات کیے گئے، جن میں سے چند نمایاں درج ذیل ہیں:

چین کے ساتھ نیوکلیئر پاور پلانٹ کا معاہدہ

روس سے پاکستان اسٹیل ملز کے منصوبے

پاکستان کی کامن ویلتھ میں واپسی

سارک کانفرنس کی میزبانی

بھارت سے جوہری تنصیبات پر عدم جارحیت کا معاہدہ

دفاعی خود کفالت کے لیے منصوبہ بندی

مسئلہ کشمیر پر عالمی سطح پر آواز بلند کرنا

فیڈرل یوتھ کونسل اور منشیات کے خلاف وزارت کا قیام

خواتین کی وزارت اور فرسٹ ویمن بینک کا آغاز

ہزاروں دیہاتوں کو بجلی کی فراہمی

ٹیلی کام سیکٹر میں ترقی اور نجی شعبے کی شمولیت

نوجوانوں کے لیے مفت سائیکل اسکیم

مہنگائی میں کمی، تیل و گیس کی پیداوار میں اضافہ

سڑکوں کی تعمیر اور روزگار کے مواقع میں اضافہ

شہادت اور سوالیہ نشان
جلاوطنی کے طویل عرصے کے بعد 18 اکتوبر 2007ء کو وطن واپسی پر کراچی میں ان کا استقبال ایک تاریخ رقم کر گیا۔ اسی رات ان پر پہلا قاتلانہ حملہ ہوا، مگر انہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کے بعد جب وہ اپنی گاڑی میں سوار ہوئیں، تو ایک حملہ آور نے پہلے گولی چلائی، پھر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئیں۔

ان کے قتل کی ذمہ داری کبھی طالبان، کبھی بلیک واٹر، اور کبھی عالمی طاقتوں پر عائد کی جاتی رہی، مگر افسوس کہ آج تک ان کے اصل قاتل بے نقاب نہ ہو سکے۔

Related Posts