بلدیہ فیکٹری میں 259 افراد زندہ جلائے جانے کے سات سال بعد بھی متاثرین کو انصاف نہ مل سکا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Baldia factory owners statement copy viral on media

کراچی: مبینہ طور پر بھتہ نہ دینے کی پاداش میں  بلدیہ فیکٹری میں259 افراد کے زندہ جلائے جانے کے اندوہناک واقعے کو آج 7 سال مکمل ہوچکے ہیں لیکن آج تک زندہ جل جانے والوں کے لواحقین کو انصاف نہیں مل سکا۔

بلدیہ فیکٹری کیس اس وقت  کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں زیر التوا ہے جبکہ واقعے کے مجرموں کو آج تک کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی اور ٹریبونلز بھی ملزمان کو سزا دلوانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

یاد رہے کہ 11 ستمبر 2012ء کو علی انٹر پرائزز نامی بلدیہ کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگا دی گئی جس میں 259 افراد زندہ جل کر جاں بحق ہو گئے۔ 2015ء میں سندھ ہائی کورٹ نے حکم جاری کیا کہ کیس کو ایک سال کے اندر اندر مکمل کیا جائے، آج اس حکم کو بھی تقریباً چار سال بیت گئے اور کیس میں آج تک کوئی قابل قدر پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔

یہ بھی پڑھیں: پنجابکےتھانوں میں پولیس اہلکاروں کے موبائل استعمال کرنےپرپابندی

درندہ صفت بھتہ مافیا نے  فیکٹری آنے والے دو سو انسٹھ فیکٹری ورکرز کو زندہ جلا کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔آگ لگانے کے لیے مخصوص کیمیکلز کے استعمال کے باعث اس آگ نے تیزی سے پوری فیکٹری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور 259 میں سے کسی ایک شخص کو بھی زندہ نہ بچایا جاسکا۔ 

ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کے مطابق ایف آئی اے نے جو تفصیلی رپورٹ دی تھی، اس میں فیکٹری کی پہلی منزل پر لگنے والی آگ کو حادثاتی قرار دیتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ آگ شارٹ سرکٹ کے باعث لگی، تاہم 2015ء میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ بھتہ نہ دینے کی وجہ سے کسی نے پوری فیکٹری کو زندہ انسانوں سمیت جلا کر راکھ کردیا، اس لیے اسے کوئی حادثہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

تفتیش سے یہ دلخراش حقیقت سامنے آئی کہ ایک سیاسی جماعت سے وابستہ بڑے بڑے نام اِس کیس میں ملوث تھے جنہوں نے بھتہ نہ دینے پر فیکٹری کے افراد کو زندہ جلانے کے احکامات صادر کیے اور بالآخر ان کی جان لے کر رہے، تاہم آج تک ان میں سے کسی ایک فرد کو بھی قرارواقعی سزا نہ ہوسکی۔

بلدیہ فیکٹری کے متاثرین کا یہ سانحہ اتنا بڑا تھا کہ بیک وقت ایک محلے سے 50 جنازے اٹھے۔ کتنے ہی لوگ اپنے جھلس کر اس دارِ فانی سے رخصت ہونے والے عزیزوں کا آخری دیدار تک نہ کرسکے۔ فیکٹری کے تہہ خانے کے گرم پانی میں کود کر جان بچانے کی کوشش میں جو لوگ جان سے گئے، ان کی حالت دیکھنے کے بھی قابل نہیں تھی۔

عدالت میں جب اس کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ پیش کی گئی تو واقعے کے مرکزی ملزم کے انکشافات سامنے آئے۔ پتہ چلا کہ سیاسی جماعت کے اعلیٰ عہدیدار نے فیکٹری مالکان سے بیس کروڑ روپے بھتہ طلب کیا تھا جسے نہ دینے پر فیکٹری کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: نامعلوم ملزمان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما تاج حیدر کے گھر چوری کی واردات کے بعد فرا

Related Posts