امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی کے تحت پاکستان اور افغانستان سے آنے والے افراد پر امریکا میں داخلے کی پابندی عائد کیے جانے کا امکان ہے۔
رائٹرز کے مطابق اس فہرست میں دیگر ممالک کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے تاہم ابھی تک ان کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔ٹرمپ کی یہ پالیسی سیکورٹی اور ویزا جانچ پڑتال کے حکومتی جائزے کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔
اس اقدام نے 2017 میں ان کے ابتدائی سفری پابندیوں کے حکم نامے کی یاد تازہ کر دی جس میں سات مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر امریکا داخلے کی عارضی پابندی عائد کی گئی تھی۔ بعد میں سپریم کورٹ نے 2018 میں اس حکم کو برقرار رکھا تھا۔
بعد ازاں سابق صدر جو بائیڈن نے 2021 میں اس سفری پابندی کو ختم کر دیا تھا اور اسے امریکی تاریخ کا “سیاہ دھبہ” قرار دیا تھا۔
رائٹرز کے مطابق افغانستان کو مکمل سفری پابندی کے لیے ترجیحی فہرست میں رکھا جائے گا جبکہ پاکستان کو بھی اس فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی جائے گی۔
یہ نئی پالیسی ہزاروں افغان مہاجرین کو متاثر کر سکتی ہے جنہیں امریکا میں پناہ گزین یا اسپیشل امیگرنٹ ویزا کے تحت آباد ہونے کی منظوری دی گئی تھی۔
یہ وہ افراد ہیں جنہیں طالبان کے انتقامی حملوں کا خطرہ لاحق ہے کیونکہ وہ افغانستان میں امریکا کے لیے خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔
ٹرمپ نے 20 جنوری کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا جس میں امریکا میں داخل ہونے والے غیر ملکیوں کی سیکورٹی جانچ پڑتال مزید سخت کرنے کا حکم دیا گیا۔
اس حکم کے تحت متعلقہ امریکی اداروں کو 12 مارچ تک ان ممالک کی فہرست پیش کرنی ہوگی جن پر مکمل یا جزوی سفری پابندی عائد کی جانی چاہیے کیونکہ ان کا امیگریشن ڈیٹا اور سیکورٹی جانچ کا نظام ناکافی ہے۔
رائٹرز کے مطابق امریکی حکومت میں شامل کچھ ادارے افغان مہاجرین کے لیے خصوصی استثنیٰ کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس استثنیٰ کے ملنے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔
دوسری طرف پاکستان کو بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشکلات کا سامنا ہے جہاں ملک کو مسلح گروہوں اور انتہا پسند تنظیموں سے لاحق خطرات کے باعث تشویش کا سامنا ہے۔