سفارشی بھرتیاں نیشنل بینک کو لے ڈوبیں، کروڑوں کے سیونگ سرٹیفکیٹس غائب، انتظامیہ خاموش؟

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
New Scandal in National Bank
ONLINE / FILE PHOTO
کراچی: نیشنل بینک آف پاکستان کی مرکزی برانچ میں ایک سنگین مالیاتی اسکینڈل سامنے آیا ہے جس میں لاکرز سے کروڑوں روپے مالیت کے سیونگ سرٹیفکیٹس غائب ہو گئے ہیں۔ یہ واقعہ ملک کے مالیاتی نظام اور بینکنگ سیکورٹی پر سنگین سوالات اٹھا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق کراچی میں واقع نیشنل بینک کی مین برانچ میں پیش آنے والے اس واقعے کی تحریری شکایت بینک انتظامیہ کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو جمع کروائی جا چکی ہے تاہم بینک نے اپنی داخلی انکوائری مکمل کرنے کے باوجود تاحال حتمی رپورٹ مرتب نہیں کی، جس کے باعث ایف آئی اے کی رسمی تحقیقات تاخیر کا شکار ہیں۔
بینک انتظامیہ نے معاملے کی ابتدائی جانچ کے لیے لاہور میں قائم فراڈ انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ سے وابستہ سینئر وائس پریزیڈنٹ عبد الرحمان چوہدری، شکیل احمد اور وائس پریزیڈنٹ کاشف ریحان پر مشتمل ایک انٹرنل انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے۔
یہ کمیٹی اپنی رپورٹ بینک کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے کو بھی ارسال کرے گی، جس کے بعد تحقیقات کو باضابطہ طور پر آگے بڑھایا جائے گا۔
تحقیقات میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ لاکرز کی انچارج، ایک جونیئر خاتون افسر بیلا جمشید کو مبینہ طور پر صدر نیشنل بینک کے دو قریبی بااثر افسران کی سفارش پر اس اہم ذمہ داری پر تعینات کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ برانچ، جہاں یومیہ اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز ہوتی ہیں، وہاں عملے کی شدید کمی اور انتظامی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر یہ چوری ممکن بنائی گئی۔
رپورٹ میں اہم سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں:
گروپ چیف کمپلائنس نے ٹرانزیکشن مانیٹرنگ سسٹم کی موجودگی کے باوجود جونیئر افسر کے اکاؤنٹ میں بھاری رقوم کی منتقلی پر کوئی کارروائی کیوں نہ کی؟
ریجنل ہیڈ نے اس خاتون افسر کا تبادلہ کرکے انہیں مین برانچ میں اعلیٰ عہدے پر کیوں اور کس بنیاد پر تعینات کیا؟
انٹرنل گروپ نے مشتبہ پیمنٹ آرڈرز اور واچرز پر دستخط کی موجودگی کے باوجود ان مشکوک سرگرمیوں کو رپورٹ کیوں نہیں کیا؟
ایف آئی اے حکام نے اس واقعے کی ابتدائی انکوائری کی تصدیق کی ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ جب تک بینک انتظامیہ داخلی انکوائری رپورٹ فراہم نہیں کرتی، ایف آئی اے رسمی تحقیقات شروع نہیں کر سکتی۔
یہ واقعہ نیشنل بینک آف پاکستان میں مالی بدعنوانی کے سلسلے کی ایک تازہ کڑی سمجھا جا رہا ہے۔ ماضی میں بھی ایف آئی اے اور نیب میں مالی بے ضابطگیوں کے متعدد مقدمات اور شکایات درج ہو چکی ہیں، مگر ان میں سے بیشتر تا حال کسی حتمی انجام تک نہیں پہنچ سکے۔

Related Posts