پاکستان کے شہرہ آفاق انقلابی شاعر حبیب جالب کو دنیا سے گزرے 28 برس بیت گئے

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اردو کے معروف شاعر حبیب جالب کی 93ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے
اردو کے معروف شاعر حبیب جالب کی 93ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

کراچی: اردو زبان کے شہرہ آفاق انقلابی شاعر حبیب جالبؔ کا28واں یومِ وفات آج منایا جارہا ہے۔

اُردو زبان کے نامور شاعر حبیب جالبؔ سن 1928ء میں صوبہ پنجاب کے ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم دہلی اور کراچی سے حاصل کی۔ کچھ عرصہ شعبۂ صحافت سے وابستہ رہے جس کے بعد ٹیکسٹائل مل میں کام کرنے لگے۔

پاکستان کے یومِ آزادی سن 1947ء کے بعد حبیب جالبؔ شہرِ قائد  آئے اور کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک کا حصہ بن گئے۔ 

سن 1957ء میں حبیب جالبؔ کا پہلا مجموعۂ کلام منظرِ عام پر آیا جس کے بعد انہیں ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہونے لگی۔ حبیب جالبؔ کے لاتعدد اشعار زباں زدِ عام و خاص ہوئے۔

کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی قیادت میں معاشرتی ناہمواریوں اور سیاسی شعور کی بیداری کے بعد حبیب جالبؔ کا تشخص ایک انقلابی شاعر کے طور پر اُبھرا۔ خاص طور پر حبیب جالبؔ کی ایک نظم نے اقتدار کے ایوانوں میں قہر بپا کردیا: 

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

ایسے دستور کو صبح بے نور کو

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے

میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے

کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے

ظلم کی بات کو جہل کی رات کو

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو

جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو

چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو

اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں

اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں

چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں

تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

حبیب جالبؔ کی اِس نظم کا عنوان ”دستور“ تھا یعنی قانون۔ حکومتِ وقت حبیب جالبؔ کے دور میں ایک ایسا قانون لانا چاہتی تھی جس پر حبیب جالبؔ سمیت ملک کے بیشتر عوام کو اعتراضات تھے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ حبیب جالبؔ کو ایک نظم کا شاعر سمجھا جائے بلکہ غزل میں بھی انہوں نے ایسے ایسے شہپارے تخلیق کیے جنہیں آج تک سراہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ ایک غزل:

شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں

کم نظر روشنی سے ڈرتے ہیں

لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری

ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں

دہر میں آہ بے کساں کے سوا

اور ہم کب کسی سے ڈرتے ہیں

ہم کو غیروں سے ڈر نہیں لگتا

اپنے احباب ہی سے ڈرتے ہیں

داور حشر بخش دے شاید

ہاں مگر مولوی سے ڈرتے ہیں

روٹھتا ہے تو روٹھ جائے جہاں

ان کی ہم بے رخی سے ڈرتے ہیں

ہر قدم پر ہے محتسب جالبؔ

اب تو ہم چاندنی سے ڈرتے ہیں

اگر ہم آخری شعر کا جائزہ لیں تو موجودہ دور میں تحریکِ انصاف کی حکومت کی طرف سے لگایا جانے والا احتساب کا نعرہ بھی اِس میں سما گیا ہے۔ یہی حبیب جالبؔ جیسے اُردو زبان کے اہم شاعر کے سیاسی شعور کا ثبوت ہے۔ 

Related Posts