مغربی افریقہ سے تعلق رکھنے والی نانا اسماءبنت عثمان کون تھیں؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مغربی افریقہ سے تعلق رکھنے والی نانا اسماءبنت عثمان کون تھیں؟
مغربی افریقہ سے تعلق رکھنے والی نانا اسماءبنت عثمان کون تھیں؟

مغربی افریقہ کی سوکوٹو خلافت کے دور میں نانا اسماء بنت عثمان فودی ایک مسلم عالمۂ دین، شاعرہ اور مردوزن کو بلا امتیاز علمِ دین سکھانے والی استاد گزری ہیں۔ بعد ازاں ان کی خلافت شمالی نائیجیریا کا حصہ بنی جبکہ وہ ایک قادری سلسلے کی صوفیہ بھی تھیں۔ سن 1793ء میں جنم لینے والی نانا اسماء مسلما حاسہ فولانی نامی قومیت کے تحت سوکوٹو خلافت کی بنیاد رکھنے والی تاریخی شخصیت عثمان فودی کی صاحبزادی تھیں جو ہمیشہ پختہ مذہبی نظریات کی حامل اور مردوزن دونوں کی بلا امتیاز تعلیم کی حامی رہیں۔

نانا اسماء نے 5 سال کی عمر میں ہی اپنے والد کی تعمیر کردہ بلند و بالا عمارت میں واقع اسکول میں جانا شروع کردیا اور ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ عثمان ڈان فوڈیو جنہیں عثمان فودی بھی کہا جاتا ہے، ایک ممتاز عالم اور ٹورونکاوا نامی علاقے میں فلانیز کمیونٹی کے سربراہ تھے۔ ان کا اخلاصِ نیت، خدا ترسی، تحمل و برداشت اور رسولِ اکرم ﷺ کی سنت دوسروں کو سکھانے کا عزمِ مصمم نانا اسماء کیلئے مشعلِ راہ ثابت ہوا۔

دورانِ تعلیم نانا اسماء نے عربی، فولا، ہاؤسا اور تماچق سمیت 4 زبانوں پر عبور حاصل کیا اور مغربی افریقہ کی سب سے بااثر مسلم ریاست کی سب سے مشہور عالمہ بن گئیں، جس سے انہیں ہر معاملے پر اظہارِ رائے اور اثر انداز ہونے کا موقع میسر آیا۔ آپ حافظۂ حدیث و قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ عسکری شعبے میں بھی متاثر کن علم رکھتی تھیں۔

 ناخواندہ عوام کو بنیادی مذہبی علم سکھانے کیلئے ایک مکمل تعلیمی نظام کی تخلیق آپ کے سب سے اہم کارناموں میں سے ایک ہے۔ اس تعلیمی تکنیک کا نام یان تارو ہے جو مختلف قواعد و ضوابط پر مبنی ہے۔ آج بھی نائیجیریا اور امریکا کے مختلف علاقوں میں لوگ یان تارو کا استعمال کرتے ہیں۔ یان تارو اُن معلمات کا ایک اسکول ہے جو ہاؤسا کی خواتین کی تعلیم و تربیت کیلئے دیہی علاقوں میں جایا کرتی تھیں جس کا آغاز 1830ء میں کیا گیا۔

جاجیز کہلانے والی یہ خواتین معلمات خلافت کے تحت تمام علاقہ جات میں سفر کرکے خواتین کو ان کے گھروں پر تعلیم دیا کرتی تھیں اور درس و تدریس کیلئے نانا اسما اور دیگر صوفی علماء کی تحریروں سے مدد لی جاتی تھی جن میں شاعری اور استذکار (یادداشتوں) کا استعمال کیا جاتا تھا جسے انگریزی میں mnemonics کہتے ہیں تاکہ یان تارو کے نظام کے تحت طالبات آسانی سے دینی علم حاصل کرسکیں جبکہ یان تارو کا مطلب مل بیٹھ کر علم حاصل کرنے والی خواتین ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جاجیز یعنی معلمات نئی ریاست، نئے عہد اور اسلامی درس و تدریس کا ایک بین الاقوامی استعارہ بن گئیں۔

اسی عہد میں نانا اسماء نے بہت سے سماجی اور اخلاقی جرائم دیکھے جو عوام الناس کی زندگیوں کو برباد کررہے تھے جن میں دھوکہ دہی، تجارت اور خریدوفروخت میں بدعنوانی، رشوت ستانی،  امیروں پر قانون نافذ کرنے میں تساہل، خواتین کیلئے تعلیمی مواقع کم کرنا اور امیر لوگوں کی جانب سے زکوٰۃ کی ادائیگی میں حیل و حجت اور لیت و لعل سے کام لینا شامل تھا۔

آپ کا یقین تھا کہ اگر خواتین کی تعلیم کی بنیاد اخلاقیات، انصاف اور دینی اصولوں پر رکھی جائے اور انہیں اپنے علم و دانش اور مہارتوں سے معاشرے کو سکھانے کا موقع دیا جائے تو معاشرہ تمام تر اخلاقی و مادی مسائل سے نبرد آزما ہوسکتا ہے۔

ایک شاعرہ کی حیثیت سے آپ نے اپنے فن سے عوام کو تعلیم دینا شروع کیا اور اپنا پیغام معاشرے تک پہنچایا۔ آپ نے ہاؤسا کے عوام کو انصاف، امن اور بہترین صلاحیتیں حاصل کرنے کی ترغیب دینے کیلئے اپنی بے شمار نظموں میں اپنے والد کی جدوجہد کو عظیم مثال بنا کر پیش کیا۔ اسی طرح آپ کی بہت سی نظمیں اورتحریریں ہاؤسا کی خواتین کو مضبوط و مستحکم بنانے کیلئے اہم ثابت ہوئیں تاکہ وہ اپنے حالات کا انتظام خود سنبھالیں اور معاشرے کی بہتری کیلئے کام کریں۔

خواتین کی بھلائی کیلئے اسماء بنت عثمان فودی نے خود کو صرف قلم تک محدود نہیں کیا بلکہ میدانِ عمل میں بھی اتریں۔ ہر روز آپ ریاست کی مختلف خواتین سے ملاقات کرتیں، ان کے مسائل سنتیں، اختلافات سلجھاتیں، اخلاقی و دینی معیارات قائم کرنے کی ترغیب دیتیں، تعلیم کی ضرورت سمجھاتیں اور دھوکہ دہی، غلط کاری، فضول گوئی، بد تمیزی اور دیگر بد اعمالیوں سے روکتیں جو معاشرے کی بربادی کا باعث بن سکتے تھے۔ یان تارو کا نظام خواتین کو صرف تعلیم نہیں دیتا بلکہ یہ بھی سمجھاتا ہے کہ وہ اپنی زندگیوں، بچوں، معیشت اورفلاح و بہبود سے متعلق دیگر مسائل پر قابو کیسے پاسکتی ہیں۔

آج بھی یان تارو کا نظام کامیاب اس لیے ہے کیونکہ اسے تخلیق کرنے کیلئے خلوصِ نیت کا سہارا لیا گیا اور  ایمان، ثقافت، تہذیب اور دیگر علوم کو فروغ دینے کیلئے کاوشیں بروئے کار لائی گئیں تاکہ ایک صحت مند، مثبت اور نیک طینت ماحول تشکیل دیا جاسکے۔ اسماء بنت عثمان کا طریقہ کار اور درس و تدریس کیلئے متاثر کن ماڈل ہمارے سامنے  ہے جس کی بنیاد 2 چیزوں پر ہے کہ عمر رسیدہ خواتین کو تعلیم و تربیت دی جائے تاکہ وہ معاشرے کی نوجوان لڑکیوں کو وہی تعلیم و تربیت آسانی سے منتقل کرسکیں۔ اس لیے یان تارو طریقۂ تدریس کی سب سے بڑی بنیاد استاد اور طالبِ علم کا آپس میں رشتہ ہے۔

مسلمانوں کی ہاؤسا فلانی کمیونٹی میں نانا اسماء تعلیمِ نسواں کی سب سے بڑی علمبردار تھیں جن کی وفات کے 150 برس گزرنے کے باوجود یان تارو نظام کی اہمیت جوں کی توں ہے۔ موجودہ دور کی جاجیز افریقہ کے ساحلوں سے نکل کر دنیا بھر کی خواتین کو تعلیم و تربیت فراہم کر رہی ہیں۔امریکا کی مثال سامنے رکھیں تو یان تارو ایجوکیشن فاؤنڈیشن و ٹرسٹ کی شاخیں پنسلوانیا، ٹیکساس، الباما، جارجیا، کیلیفورنیا، بالٹی مور، پٹزبرگ، لاس اینجلس، سکرامنٹو، آکلینڈ، فلوریڈا اور مساچوسیٹس میں موجود ہیں جہاں سیکڑوں خواتین کو کلاسز اور سیمینارز کے ذریعے تعلیم و تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ شمالی نائجیریا میں آج بھی اسماء بن عثمان فودی ایک قابلِ قدر شخصیت سمجھی جاتی ہیں جو اسلامی شخصیات کے نزدیک تعلیمِ نسواں کی اور دیگر کے نزدیک افریقہ میں جدید نسائیت کی علمبردار ہیں۔ 

Related Posts