مری: متعدد سیاحوں کی جانب سے مری میں ہوٹل مالکان پر شدید برفانی طوفان کے دوران کرایہ اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے، جس کے باعث خواتین اور بچوں سمیت 22 افراد گاڑیوں میں پھنسے ہوئے ہلاک ہو گئے تھے۔
ریسکیو 1122 کے ڈویژنل ایمرجنسی آفیسر ڈاکٹر رحمٰن جو ریسکیو آپریشن کی سربراہی کر رہے ہیں نے بتایا کہ اب تک 22 لاشیں نکالی جا چکی ہیں جن میں 10 مرد، دو خواتین، چار لڑکے اور چھ لڑکیاں شامل ہیں۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیو میں گاڑیوں کو بمپر ٹو بمپر دکھایا گیا ہے، جن کی چھتوں پر ایک میٹر اونچے (تین فٹ) برف کے ڈھیر ہیں۔ ویڈیو میں بچوں سمیت پورے خاندان کو برف سے ڈھکی گاڑیوں میں مردہ پڑے دکھایا گیا۔
سیاحوں کے مطابق مری میں ہوٹل مالکان نے فی کمرہ کرایہ 6000 روپے سے بڑھا کر 70,000 روپے کر دیا جس سے سیاح اپنی گاڑیوں میں رات گزارنے پر مجبور ہو گئے۔ سیاحوں نے مری کے ہوٹل مالکان کو 22 افراد کی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
کچھ سیاحوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس علاقے میں خوراک کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی تھیں، خاص طور پر شدید موسمی حالات کے دوران سیاحوں نے الزام لگایا کہ 60 روپے کی چائے کا کپ 500 روپے میں فروخت ہوا جبکہ ابلا ہوا انڈا 250 روپے میں فروخت ہوا۔
انہوں نے مزید کہا، ”اتنی زیادہ قیمتوں اور ہوٹل مالکان کی منافع خوری کی وجہ سے، لوگوں کے پاس اپنی کاروں میں سونے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، جس کی وجہ سے 20 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔
ایک نجی میڈیا آؤٹ لیٹ نے اطلاع دی ہے کہ برف باری سے سڑکیں بند ہونے کے بعد کچھ خاندانوں نے دو سے تین راتیں اپنی گاڑیوں میں گزاریں اور وہ ہوٹل میں قیام کے متحمل نہیں ہو سکے۔ دوسری جانب ہوٹل مالکان نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے۔
مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب نے سانحہ مری کی تحقیقات کے لیے سات رکنی کمیٹی تشکیل دے دی