اسلام آباد میں نوجوان کا مبینہ قتل حادثہ قرار، والدہ کی حرکت قلب بند، انتقال کر گئی

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد میں نوجوان کا مبینہ قتل حادثہ قرار، والدہ کی حرکت قلب بند، انتقال کر گئی
اسلام آباد میں نوجوان کا مبینہ قتل حادثہ قرار، والدہ کی حرکت قلب بند، انتقال کر گئی

اسلام آباد میں 22 سالہ نوجوان کے مبینہ قتل کو حادثہ قرار دے کر مقدمہ داخلِ دفتر کردیا گیا ہے جبکہ نوجوان کے انتقال کی خبر والدہ پر بجلی بن کر گری جو حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کر گئی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق نوجوان کے مبینہ قتل کا واقعہ تھانہ شمس کالونی کی حدود میں پیش آیا۔ سفاک قاتلوں نے نوجوان کی لاش ریلوے ٹریک پر پھینک دی۔ پولیس نے واقعے کو ٹرین حادثہ قرار دے کر لاش پوسٹ مارٹم کیے بغیر ورثاء کے حوالے کردی۔ کیس داخلِ دفتر کردیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

اے این ایف نے کئی شہروں سے چرس اور ہیروئن برآمد کر لی 

جائے وقوعہ یعنی ریلوے ٹریک پر خون موجود نہیں تھا۔ مقتول کا موبائل فون بھی غائب تھا اور کپڑے بدل دئیے جانے کے پہلو پر تفتیش نہیں کی گئی۔ کیس کو اتفاقی حادثہ قرار دے کر جان چھڑا لی گئی جبکہ مقتول کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی نظر انداز کردئیے گئے۔

مقتول نوجوان کے ورثاء نے ڈی سی اسلام آباد کو تحریری درخواست دے دی کہ مقتول زبیر کی قبر کشائی کرکے میت کا پوسٹ مارٹم کیا جائے۔ 22 سالہ محمد زبیر 25جولائی کو گھر سے نکلنے کے بعد لاپتہ ہوگیا تھا۔ والد نے ایبٹ آباد کے تھانے میں گمشدگی کی رپورٹ درج کروا دی۔

بعد ازاں 30 جولائی کی صبح 11 بجے زبیر کی لاش نیو بوکڑہ ریلوے ٹریک سے برآمد ہوئی۔ شناخت نہ ہونے پر پولیس نے میت کو پمز ہسپتال کے مردہ خانے میں رکھوا دیا اور فنگر پرنٹس نادرا روانہ کردئیے۔ نادرا رپورٹ پر پولیس نے 6 اگست کو ورثاء سے رابطہ کیا اور لاش ان کے حوالے کردی۔

لاش حوالگی کے بعد مقتول کی آبائی علاقے میں تدفین کردی گئی۔ مقتول نوجوان کا موبائل فون ٹریس کرنے کے بعد پولیس نے موبائل فون کی سم استعمال کرنے والے ملزم رضوان کو گرفتار بھی کیا لیکن تفتیش کو مشکوک طور پر صرف موبائل چوری تک ہی محدود رکھا۔

ملزم رضوان کے پولیس کو دئیے گئے بیان سے بھی شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ رضوان کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ 26 جولائی کو اس نے مقتول زبیر کو بائیکیا پر صدر سے گولڑہ موڑ پر ڈراپ کیا۔ ہوٹل پر دونوں نے چائے پی۔ اس دوران اس نے مقتول زبیر کا موبائل فون چوری کر لیا۔

ملزم کے بیان کے مطابق اس نے مقتول کا چوری شدہ موبائل 14 اگست کو نصیر آباد میں موبائل شاپ پر فروخت کیا۔ پولیس نے موبائل چوری کا مقدمہ درج کرکے ملزم رضوان کو جیل بھجوا دیا جبکہ مقتول زبیر کے کیس کو موبائل چوری تک ہی محدود کردیا۔ قتل کی تحقیقات ہی نہیں کی گئیں۔

پولیس نے مقتول زبیر کے ورثاء کو موبائل فون کی مد میں 13 ہزار روپے تھما کر کیس ٹھپ کردیا۔ مقتول زبیر کی موت کے بعد اس خاندان پر قیامت اس وقت ٹوٹی جب مقتول نوجوان کی غمزدہ والدہ اپنے بیٹے کی جدائی مزید برداشت نہ کرسکی اور حرکتِ قلب بند ہوجانے پر انتقال کر گئی۔ 

Related Posts